*** اُردُو نثر اور اس کی اقسام ***Urdu Nasar aur es ke aqsam


نثر:
اُردُو نثر کے آغاز کے بارے میں مختلف ادیبو ں کے مختلف نظریات ملتے ہیں ۔

عظیم الحق جنیدی نے ’’خیابانِ ادب‘‘میں لکھا ہے کہ
ٖ"اُردُوکی سب سے پہلی نثر کی تصنیف خواجہ سید اشرف جہاں گیر سمنانی کا رسالہ’’تصوف واخلاق‘‘ ہے جو ٨٠٢١ئ میں لکھا گیا۔

ڈاکٹر شعیب انصاری، خالد انصاری نے اپنی کتاب ’’روحِ ادب‘‘ میں لکھا ہے کہ

متفرق ملفوظات سے قطعِ نظر دکن کا اوّلین نثر نگار عین الدین گنج العلم کو قرار دیاگیا ہے۔ان سے چند رسالے بھی منسوب کیے گئے ہیں لیکن اوّلین نثر نگار کی حیثیت سے عین الدین گنج العلم کا مقام مشتبہ اور ان کے رسالوں کا وجود ناپید ہے۔ چودھویں صدی سے سولھویں صدی تک دکن میں صوفیائے کرام کی اخلاق وتصوف پر اردو نثر میں جو تصانیف بتائی گئی ہیں ان میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی مشہور کتاب ’’معراج العاشقین‘‘ جو پندرہویں صدی کے وسط میں لکھی گئی، قابلِ ذکر ہے۔
حکیم شمس الدین قادری نے دکن کے ایک بزرگ میرا جی شمس العشاق کے دورسالے ’’جلترنگ‘‘ اور ’’گل باس‘‘ کودیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حامد حسن قادری نے لکھا ہے کہ نثری تصانیف میں شرح ’’مرغوب القلوب‘‘ ’’جلترنگ‘‘ اور ’’ گل باس‘‘قلمی موجود ہیں۔ لیکن میرا جی کے صاحبزادے اور سلطنت عادل شاہی بیجاپور کے مشہور صوفی برہان الدین جانم کے دو نثری کارنامے ’’کلمۃ الحقائق ‘‘ اور ’’وجودیہ ‘‘ مستند بھی ہیں اور دستیاب بھی۔ جن کو تاریخی حیثیت سے اوّلین نثر اور برہان الدین جانم کو اوّلین نثر نگارکا درجہ دیا جاسکتاہے۔ برہان الدین کے صاحبزادے اور صوفی نثر نگار سید شاہ امین الدین اعلیٰ کی نثری تصانیف ’’گفتار حضرت امین‘‘ ، رسالہ ’’وجود یہ‘‘ اور ’’کلمۃ الاسرار‘‘ ہیں۔ ان کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف بھی ہیں جن کا موضوع تصوف واخلاق ہے۔
قطب شاہی دور کا مشہور شاعر ملااسداللہ وجہی کی تصنیف’’سب رس‘‘ اردو نثر میں ادبی حیثیت سے اوّلین نثر کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ اس کی طبع زاد تصنیف نہیں ہے بلکہ محمد یحییٰ ابن سبیک قناحی نیشاپوری کی فارسی تصنیف ’’دستور عشق‘‘ کے نثری خلاصے’’حسن ودل‘‘ سے ماخوذ ہے۔ ملاوجہی نے سب رس میں نظم کا سا مزاح پیش کیا ہے۔
شمالی ہند میں فضل علی فضلی کی ’’کربل کتھا‘‘ سے نثر کا باقاعدہ آغاز ماناجاتاہے ۔ لیکن یہ فضلی کی طبع زاد تصنیف نہیں ہے بلکہ کمال الدین حسین بن علی واعظ کاشفی کی فارسی تصنیف ’’روضۃ الشہدائ‘‘ کا ترجمہ ہے۔ کربل کتھا کے مضمون اور مفہوم کو اردومیں منتقل کیاگیا ہے۔ کربل کتھا کا دور وہ دورتھا جب اُردُو عوام اورخواص میں رواج پارہی تھی۔ یہ دہلوی زبان کی نمائندگی کرتی ہے۔
میرمحمد حسین عطا خاں تحسینؔ نے فارسی کے قصہ ’’چہار درویش‘‘ کو رنگین اور دقیق اردو میں ’’نوطرز مرصع‘‘ کے نام سے میں تصنیف کیا۔اس میں فارسی زبان کا انداز صاف جھلکتا ہے۔ ’’نوآئینِ ہندی‘‘ مہر چند کھتری مہرؔ نے ٨٨۔٩٨٧١ئ میں تالیف کی۔ اس کی زبان فارسی کی دقیق زبان سے ہٹ کرسادہ اور سلیس ہے۔ نثری داستانوں میں ’’عجائب القصص‘‘ کانام بھی آتا ہے جو شاہ عالم ثانی کی تصنیف ہے۔ ٦٩٧١ئ میں ایک داستان ’’جذبِ عشق‘‘ تصنیف کی گئی۔جس کے مصنف شاہ حسین حقیقت بریلوی ہیں ۔٩٩٧١ئ میں حیدربخش حیدری نے فارسی کی داستان ’’مہر وماہ‘‘ کاترجمہ سلیس اردو میں کیا۔ اب تک جو بیان کیاجاچکاہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ اس دور تک اردو نثر کو وہ درجہ حاصل نہیں تھا جو فورٹ ولیم کے قیام کے بعد حاصل ہوا۔ نثر کی یہ تصانیف اوجھل ہوکر رہ گئیں اس لیے اردو نثر کی تعمیر وترقی پر ان کا کوئی خاص اثر نمایاں نہیں ہوا۔
10جولائی 1800ء کو جان گل کرسٹ کے ذریعہ فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے قیام کے بعد اردو نثر درجہ بدرجہ منزلیں طے کرتا ہوا آج جس مقام پر پہنچا ہے وہ قابلِ قدر ہے۔اس کالج کے مصنفین اور مترجمین کی تعداد 84 تک بتائی گئی ہے ۔ جن میں میر بہارد علی حسینی،میرامنؔ، حیدر بخش حیدری، میر شیر علی افسوسؔ، مرزا علی لطفؔ، مظہر علی خان ولاؔ، کاظم علی جوانؔ، خلیل اشکؔ، نہال چند لاہوری، بینی نارائن جہاں ؔ، اکرم علی، للولال کوی اورمرزاجان طیشؔ وغیرہ کے نام قابلِ تعریف ہیں۔

نثر کی قسمیں :
نثر کی کوئی مخصوص تعریف نہیں کی جاسکتی اور اس کے اجزائے ترکیبی بھی مقرر نہیں ہوسکتے۔ اس لیے نقادوں نے نثر کی تعریف کرنے کے بجائے نظم اور نثر کے تفرق سے بحث کی ہے تاکہ نثر اور نظم کی علیحدہ علیحدہ پہچان ہوسکے۔ نثر کی ایک تعریف اس طرح کی گئی ہے ۔ نثرایسا کلام ہے جس میں وزن اور قافیہ نہیں ہوتا یہ تفریق عام طور پر تو درست ہے لیکن نثر مر جز جو نثر کی ایک قسم ہے، اس میں وزن ہوتاہے اور نثر مقفیٰ میں قافیہ ہوتاہے۔ نثر مقفیٰ بھی نثر کی ایک قسم ہے ۔اس طرح کہاجاسکتا ہے کہ نثر اور نظم میں کوئی ایسا ہیئتی فرق باقی نہیں رہتا جس کی بنا پر دونوں کوممیز کیاجاسکے۔ ایڈورڈالبرٹ نے نظم اور نثر میں ہیئت کے اعتبار سے امتیاز کرنے کی کوشش اس طرح کی ہے۔

1۔ نظم میں وزن ہوتاہے، جب کہ نثر میں وزن نہیں ہوتا۔
2۔ عام طور پر نظم میں قافیہ ہوتا ہے ۔ جب کہ نثر میں قافیہ نہیں ہوتا۔
ایسی نثر جس میں وزن ہو یا قافیہ ہونظم سے اس طرح ممتاز کی جاسکتی ہے کہ عام طور پر نظم میں کوئی خاص بحر پائی جاتی ہے اور اس کو اشعار یا مصروں میں لکھا جاتا ہے جب کہ نثر میں یہ شرطیں نہیں ہوتیں ۔ لیکن اس بات کا خصوصی دھیان رکھنا چاہئے کہ نظم اور نثر میں بیّن اور ہمیشہ صحیح ثابت ہونے والا ہیئتی فرق دریافت کرنا مہال ہے۔ اس لیے نثر ونظم کا امتیاز معنوی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔
جہاں تک اسلوب کا سوال ہے نظم اور نثر کے فاصلے آسانی سے معین نہیں کیے جاسکتے۔ تاہم اصولی طور پر کہاجاسکتا ہے کہ
1۔ نظم کے اسلوب میں رفعت اور عظمت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔
2۔ نظم میں شاعر ان رعایتوں سے فائدہ اٹھاتاہے جنھیں شاعرکے لیے جائز رکھا گیا ہے مثلاً وہ فعل اور اس کے متعلقات کی نحوی ترتیب سے انحراف کرتا ہے جب کہ نثر کے جملوں میں فعل اور اس کے متعلقات مبتدا اور خبر اپنے اپنے مقام پر ہوتے ہیں ۔
3' نظم کا اسلوب بعض اوقات نثر کی نسبت زیادہ قدامت کاتاثر دیتا ہے (غالباً یہاں قدامت سے مراد لسانی قدامت ہے۔ اور نقاد موصوف نے یہ بات خاص طور پر انگریزی شاعری کے حوالے سے کہی ہے)

جہاں تک غایت اور مواد کا تعلق ہے نظم اور نثر میں یہ فرق ہے کہ:
1۔ نظم قاری کو مسرت بہم پہنچانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ نثر کا بنیادی فریضہ معلومات بہم پہنچانا ہے۔
2۔فنکار کی شخصیت اور اس کے ذاتی جذبات نظم میں زیادہ داخل ہوتے ہیں جبکہ نثر میں یہ کم دخل رکھتے ہیں ۔

مختلف نقادوں اور خاص طور پر ڈاکٹر سید عبداللہ نے نظم اور نثر کے درمیان فاصلے متعین کرتے ہوئے جوجواز پیش کئے ہیں وہ رج ذیل ہیں :
نظم
نثر
نظم میں جذبہ مستقل حیثیت رکھتا ہے۔
نثر میں جذبہ عارضی مہمان کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔
۔2
نظم بنیادی طورپر دل کی گہرائیوں سے تعلق رکھتی ہے۔
نثرذہن کی گہرائیوں سے تعلق رکھتی ہے۔
نظم میں زندگی تخیل کے عمل سے گزر کراپنا آب و رنگ باقی رکھتی ہے۔
نثرحقیقت کے تقاضوں کے باعث گویائی کی اسیر ہے۔
نظم ہمارے علم میں اضافے کا باعث ہوتی ہے۔
نثرہماری معلومات میں اضافہ کرتی ہے۔
نظم حساس صورتوں کا سہارا لیتی ہے۔
نثرموجودہ حقائق سے وابستہ ہوتی ہے۔
نظم میں مواد کی تخلیق ہوتی ہے۔
نثر میں مواد کی تعمیر ہوتی ہے۔
نظم کا مقصد مسرت پیدا کرناہے۔
نثر کا مقصد کسی غرض کی تکمیل کرنا ہے۔
نظم کا موضوع ادبی ہوتا ہے۔
نثر کا موضوع بعض اوقات ادبی نہیں ہوتا ۔
نظم میں لفظوں فقروں اور جملوں کی منطقی اور نحوی ساخت سے انحراف روا رکھا جاتاہے جو حسن کا باعث بنتاہے۔
…نثر لفظوں ، فقروں اور جملوں کی منطقی اورنحوی ساخت پر اصرار کرتی ہے۔
10۔
نظم کے لیے کسی نہ کسی شکل میں عروضی اوزا ن کی پابندی لازم ہے۔
نثر پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔

بعض اوقات نظم کو پراثر بنانے کے لیے نثر نگار بھی جذبہ اور تخیل سے کام لیتا ہے۔ ایسی نثر شاعرانہ نثر کہلاتی ہے۔ ریاضی ، سائنس، فلسفہ اور عام کاروباری معلومات سے متعلق تحریریں خالص نثر کی نمائندگی کرتی ہےں ۔
صورت کے لحاظ سے نثر کی چار قسمیں ہیں :
1۔ عاری
2۔ مرجّز
3۔ مسجع
4۔ مقفیٰ
ان کو لفظی اقسام نثر بھی کہاجاتا ہے۔

عاری: وہ نثر ہے جس میں نہ وزن کی قید ہو نہ قافیہ کی۔ لیکن سنجیدگی ، متانت، سلاست اور فصاحت میں بلند درجہ رکھتی ہو۔ جب نثر کی دنیا میں مسجع وقافیہ کا سکہ چلتا تھا اور مقفیٰ اور مسجع نثر ہی کوصحیح ادبی نثر سمجھا جاتا تھا۔اس وقت نثرکا صحیح آہنگ رکھنے والی نثر کو نثر عاری جیسا نام ہی دیا جاسکتا تھا۔ جدید نقطۂ نظر کے مطابق نثرِ عاری ہی صحیح معنووں میں ادبی نثر ہے۔مثلاً:
’’’تاریخ کے اوراق پر سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ یہ عجائب زار ہمیشہ سے عجیب عجیب تغیرات وحوادث کی آماجگاہ رہ چکاہے۔ قوموں اور ملکوں کا عروج وزوال، عظیم الشان سلطنتوں کی تباہی وبربادی ، نیرنگِ روزگار کے ادنیٰ کرشمے اور نمونے ہیں ۔‘‘
مرجز: اگر نثر میں شعر کا وزن تو ہو مگر قافیہ نہ ہوتو ایسی نثر کو مرجز کہا جاتاہے۔نثر کے تمام فقروں میں وزن پیدا کرنے کے لیے الفاظ کی ترتیب میں الٹ پھیر کردیاجاتاہے۔ ایک مثال اس طرح ہے:
قامت موزوں کے روبرو سرورواں ناچیز ہے اور کاکُل پیچاں کے سامنے مشک ختن بے قدر ہے۔

مسجع: بعض حضرات کے نزدیک نثرمقفیٰ اور نثر مسجع ہم معنی اصطلاحات ہیں لیکن بعض علمائے ادب نثر مسجع کو نثر مقفیٰ سے مختلف جانتے ہیں ۔ ان کے خیال میں صنف توضیح اگر نثر میں واقع ہو یعنی دوفقروں یاجملوں کے تمام یا بیشتر الفاظ علی الترتیب وزن اور قافیہ میں متفق ہوں تو ایسی نثر کو نثر مسجع کہا جائے گا۔
دریائے لطافت میں سید انشائ نے اس کی مثال میں یہ فقرے لکھے ہیں :
پونڈا میٹھا اتنا بھلا کہ جس کی بھلائی گمان سے بڑھ کر ہے۔ پونڈا پھیکا اتنا برا کہ اس کی برائی بیان سے باہر ہے۔ ان دونوں جملوں میں تمام الفاظ ہم وزن ہیں ۔

مقفیٰ: ایسی نثر جس کے فقروں میں وزن نہ ہو، لیکن قافیہ استعمال کیا گیاہو۔ غالبؔ کے خطوط میں اس کی بہترین مثالیں مل جاتی ہےں ۔ مثال کے طور پرغالبؔ کے درج ذیل اقتباس میں خط کشیدہ الفاظ ہم قافیہ ہےں ۔
’’حضرت نے میری گرفتاری کانیا رنگ نکالا۔ بوستانِ خیال کے دیکھنے کا دانہ ڈالا۔ مجھ میں اتنی طاقتِ پرواز کہاں کہ بلا سے اگر پھنس جائوں ۔ دام پر گرکے دانہ زمین پر سے اٹھائوں ‘‘۔

معنی کے اعتبار سے بھی نثر کی چار قسمیں ہیں :

1۔ دقیق رنگین
2۔ دقیق سادہ
3۔ سلیس رنگین
4۔ سلیس سادہ۔
ان کو معنوی اقسام نثر کہتے ہیں ۔

1۔ دقیق رنگین: ایسی عبارت میں الفاظ اور معنی دونوں ہی مشکل ہوتے ہیں اور اس میں صنائع لفظی ومعنوی سے بھی کام لیاجاتاہے۔ الفاظ آپس میں کسی نہ کسی طرح کی مناسبت رکھتے ہیں ۔

2۔ دقیق سادہ: ایسی عبارت الفاظ اور معنی دونوں کے اعتبار س
ے مشکل تو ہوتی ہے مگر اس میں رعایت ومناسبات اور صنائع وبدائع نہیں ہوتے ہیں ۔ اس کے الفاظ میں مناسبت بھی نہیں پائی جاتی ہے۔

3۔ سلیس رنگین: اس میں الفاظ اورمعنی دونوں اعتبار سے سہل عبارت ہوتی ہے مگر اس میں مناسبات لفظی اور صنائع وبدائع کا استعمال ہوتاہے۔

4۔ سلیس سادہ: اس میں الفاظ ومعنی دونوں اعتبار سے سہل عبارت ہوتی ہے اور کوئی رعایت لفظی بھی نہیں ہوتا۔

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اُردُو کے شرارتی حروف...

مراۃ العروس کا تنقیدی و فکری جائزہ۔۔

اُردُو لکھنے میں کی جانے والی عام غلطیاں Urdu Lekhnay main ke jany wali Aam Ghaltian