اُردُو میں کتنے حروفِ تہجی ہیں ؟ ? How many alphabets are there in Urdu



اُردُو میں کتنے حروفِ تہجی ہیں ؟اس مسئلے پر ہر دور میں ماہرینِ اُردُو کی مختلف آرا رہی ہیں اور آج بھی کچھ لوگ اس سوال کو اٹھاتے رہتے ہیں ۔

✩ دراصل حروف تہجی کا مسئلہ لسانیات اور صوتیات سے جڑا ہوا ہے اور اسی کی روشنی میں اس مسئلے کا جائزہ لینا چاہیے۔

ہم اپنے اس مضمون  میں اس موضوع  پر بات کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ لسانیات اور صوتیات کے ماہرین کے مطابق حروف ِ تہجی دراصل آوازوں کی علامات ہیں اور ان کا مقصد کسی زبان میں موجود آوازوں کو ظاہر کرنا ہے۔بیسویں صدی کے ابتدائی بیس پچیس برسوں تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ اُردُو میں پینتیس (35) یا چھتیس (36) حروف ِتہجی ہیں اور اس زمانے کے ابتدائی اُردُو قاعدوں اور بچوں کو اُردُو سکھانے والی کتابوں میں یہی تعداد لکھی جاتی تھی ۔ البتہ بعض کتابوں میں پہلے ’’مفرد‘‘ حروف ِ تہجی لکھ کر بعد میں ’’مرکب ‘‘ حروف ِ تہجی لکھے جاتے تھے اور یہ طریقہ بعض کتابوں میں آج بھی ملتا ہے۔ یہ مرکب حروف ِ تہجی کیا تھے ؟
یہ دراصل ہائیہ یا ہکاری آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف ِ تہجی (یعنی بھ، پھ، تھ وغیرہ) تھے۔ ان آوازوں کو انگریزی میں aspirated sounds کہاجاتا ہے۔ مغرب میں جب جدید لسانیات کی بنیادیں سائنس پر استوار ہوئیں تو لسانیاتی اور صوتیاتی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ یہ ہائیہ آوازیں (بھ، پھ، تھ وغیرہ) دراصل باقاعدہ، الگ اور منفرد آوازیں ہیں ۔ گویا لسانیات کی زبان میں یہ الگ فونیم (phoneme) ہیں۔لسانیاتی تجربہ گاہوں میں کمپیوٹر کے ذریعے کی گئی جانچ نے بھی اس نظریے کو آج تک درست ثابت کیا ہے کہ وہ آوازیں جوہوا کے ایک جھٹکے کے ساتھ مل کرہمارے منھ سے نکلتی ہیں (بھ ، پھ، تھ وغیرہ )وہ الگ آوازیں یا منفرد صوتیے ( فونیم) ہیں اور ان آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف ِ تہجی بھی الگ حروف سمجھے جانے چاہیئے ۔

بابائے اُردُو مولوی عبدالحق نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ اُردُو میں اوکسفرڈ کی عظیم لغت کی طرز پر ایک ایسی کثیر جلدوں پر مبنی لغت بنائی جائے جس میں اُردُوکا ہر لفظ ہو اور ہر لفظ کے استعمال کی سند بھی شعرو ادب سے دی گئی ہو۔ اس منصوبے پر 1930ء میں کام شروع ہوا تو پہلا مسئلہ حروف تہجی کی تعداد اور ترتیب کا تھا کیونکہ اس کے بغیر کسی لغت میں الفاظ کی ترتیب طے نہیں کی جاسکتی۔ اُردُو کی پرانی لغات میں عام حروف اور ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف (مثلاً ب اور بھ ) میں کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا اور ان میں بعض الفاظ (مثلاً بہانا اور بھانا ،بہر اور بھر، پہر اور پھر)  ترتیب کے لحاظ سے ایک ساتھ ہی درج ہیں جو لسانیات کی رو سے غلط ہے اور قاری کے لیے بھی الجھن کا باعث ہے۔ لہٰذا  بابائےاُردُو نے طے کیا کہ اُردُو کی ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف ِتہجی کو بھی الگ حرف مانا جائے اور لغت میں ان کی الگ تقطیع قائم کرکے ان کی ترتیب غیر ہائیہ حروف کے بعد رکھی جائے مثال کے طور پر جب ’’ب ‘‘ سے شروع ہونے واے تمام الفاظ کا لغت میں اندراج  ہوجائے تو ’’بھ‘‘ سے شروع ہونے والے الفاظ لکھے جائیں ، و علیٰ ہٰذا القیاس۔ اس طرح مولوی عبدالحق وہ پہلے لغت نویس تھے جنھوں نے ان  ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف (بھ ، پھ وغیرہ)کو باقاعدہ الگ حرف مان کر اُردُو کے حروف تہجی کی تعداد اور ترتیب درست کی ۔

اُردُو میں ان ہائیہ حروف کی تعداد پندرہ (15) ہے اور یہ بھی اُردُو کے حروف تہجی میں شامل ہیں۔

قیام ِپاکستان سے قبل اُردُو لغت کا یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا ۔اس عظیم لغت کے منصوبے کو حکومت پاکستان نے اُردُو لغت بورڈ کے تحت ازسرِ نوشروع کیا ۔ شان الحق حقی نے بطور معتمد (سیکریٹری)بورڈ کی لغت کے منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کیا تو علم ِ لسانیات سے واقفیت کی بنا پر بابائےاُردُو کی طے کردہ اُردُو حروف تہجی کی تعداد اور ترتیب سے اتفاق کرتے ہوئے اُردُو کے ہائیہ حروف کو بھی اس میں شامل کیا ۔ اس طرح عربی کے اٹھائیس (28)حروف ،فارسی کے مزید چار (4)حروف(یعنی پ۔چ۔ژ۔گ) ، اردو کی معکوسی آوازوں (یعنی ٹ۔ ڈ ۔ ڑ )کو ظاہر کرنے والے تین (3)حروف، اُردُو کی ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے پندرہ (15) حروف ، الف ممدودہ (یعنی الف مد آ)اور ہمزہ (ء) کے علاوہ بڑی ’’ے‘‘ کو بھی الگ سے حرف ِتہجی شمار کیا کیونکہ اُردُو میں یاے مجہول (یعنی بڑی ’’ے ‘‘) کا الگ استعمال ہے۔ اس طرح اُردُو کے حروف تہجی کی کل تعداد’’الف ‘‘سے لے کر ’’ے ‘‘تک تریپن (53) ہوگئی جن کو ترتیب سے یہاں لکھا جاتا ہے :

 

ا۔آ۔ ب۔ بھ۔پ۔ پھ۔ت۔ تھ۔ٹ۔ ٹھ۔ث۔ ج۔ جھ۔چ۔ چھ۔ ح۔ خ۔ د۔

 

دھ۔ڈ۔ ڈھ۔ذ۔ ر۔ رھ۔ڑ۔ ڑھ۔ز ۔ ژ۔ س ۔ ش۔ ص۔ ض۔ ط۔ ظ۔ ع۔ غ۔ ف۔

 

ق۔ک۔ کھ۔ گ۔ گھ۔ ل۔لھ۔ م۔ مھ۔ن۔ نھ۔ و ۔ ہ ۔ ء۔ ی ۔ ے

 

ان میں شامل حروف لھ، مھ، نھ وغیرہ باقاعدہ حروف ِ تہجی ہیں کیونکہ وہ اُردُو کی بعض آوازوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی لیے ننھا، تمھارا ، جنھیں اور چولھاجیسے الفاظ میں دو چشمی ھ لکھنی چاہیے ورنہ ان کا املا غلط ہوجائے گا ۔

(ان الفاظ کے املا میں دوچشمی ھ کے استعمال پر تفصیلی گفتگو پھر کبھی سہی)۔

(محترم مدیران سے درخواست ہے کہ یہاں ان الفاظ مثلاً تمھارا، جنھیں وغیرہ کو دو چشمی ھ ہی سے لکھا رہنے دیجیے ، خواہ آپ اس املا سے اتفاق نہ کرتے ہوں، ورنہ ساری بحث بے کا ر ہوجائے گی۔ شکریہ )

اُردُو کے حروف تہجی کی صحیح تعداد اُردُو لغت بورڈ میں شان الحق حقی نے تریپن (53) طے کی اور اسی ترتیب اور تعداد کی بنیاد پر اُردُو کی بائیس(22) جلدوں پر مبنی لغت باون (52) سال کی محنت شاقہ کے بعد مرتب اور شائع کی گئی۔ البتہ دور جدید میں کمپیوٹر آنے کے بعد جب مشینی کتابت میں نون غنے (ں) کی وجہ سے مسئلہ ہونے لگا تو مقتدرہ قومی زبان (جس کا نام اب ادارہ ٔ فروغ ِ قومی زبان ہوگیا ہے ) نے اپنے صدر نشین افتخار عارف صاحب کی نگرانی میں ایک مجلس(کمیٹی ) بنائی جس نے یہ طے کیا کہ نون غنے (ں) کو بھی ایک حرف تسلیم کیا جائے تاکہ ایک معیاری (اسٹینڈرڈ) کلیدی تختے (یعنی key بورڈ ) کی مدد سے جب عالمی سطح پر اُردُو کو فون اور کمپیوٹر میں استعمال کیا جائے تو کوئی الجھن نہ ہو۔ اس طرح اُردُو کے حروف ِتہجی میں ترتیب کے لحاظ سے نون (ن) کے بعد نون غنے (ں) کا اضافہ کرنا پڑا۔اس اضافے سے ان حروف کی کُل تعداد چوّن (54) ہوگئی ہے اور اب اسی کو سرکاری طور پر درست تسلیم کیاجاتا ہے۔ گویا اُردُو کے حروف تہجی کی صحیح تعداد چوّن (54) ہے۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اُردُو کے شرارتی حروف...

مراۃ العروس کا تنقیدی و فکری جائزہ۔۔

اُردُو لکھنے میں کی جانے والی عام غلطیاں Urdu Lekhnay main ke jany wali Aam Ghaltian