Urdu Moral Story ماں ! تو ماں ہوتی ہے
کل رات میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کے
کئی پہلوؤں کو چھو لیا۔
قریباً شام کے7
بجےہوں گے، موبائل کی گھنٹی بجی۔
فون اٹھایا تو
ادھر سے رونے کی آواز سُنائی دی۔
میں نے چپ کرایا اور آواز پہچان کر پوچھا کہ بھابی جی آخر ہوا کیا؟
ادھر سے آواز آئی آپ کہاں ہیں؟ اور کتنی دیر میں آ سکتے
ہیں؟
میں نے کہا آپ پریشانی بتائیں اور بھائی صاحب کہاں ہیں؟
اور ماں جی کدھر ہیں؟
آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن اُدھر سے صرف ایک ہی رٹ کہ آپ فوراً آجائیے۔
میں نے اُنہیں تسلی
دیتے ہوئے کہا
ایک گھنٹہ لگے
گا پہنچنے میں۔۔۔۔
پھر جیسے تیسے میں وہاں پہنچا۔
دیکھا کہ بھائی صاحب، (جو ہمارے جج دوست ہیں) سامنے
بیٹھے ہوئے ہیں۔
بھابی جی رونا چیخنا کر رہی ہیں۔
12 سال کا بیٹا
بھی پریشان ہے اور 9 سال کی بیٹی بھی کچھ کہہ نہیں پا رہی ہے۔
میں نے بھائی صاحب سے پوچھا کہ آخر کیا بات ہے؟
بھائی صاحب کچھ جواب نہیں دے رہے تھے۔
پھر بھابی جی نے کہا: یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات۔
کورٹ
سے تیار کروا کر لائے ہیں۔
مجھے طلاق دینا چاہتے ہیں۔
میں نے پوچھا "یہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟
اتنی اچھی
فیملی ہے، دو بچے ہیں۔ سب کچھ سیٹلڈ ہے۔
پہلی نظر میں
مجھے لگا کے یہ مذاق ہے۔
لیکن ؟
پھرمیں نے بچوں سے پوچھا دادی کدھر ہے؟
تو بچوں نے
بتایا: پاپا انہیں 3 دن پہلے لاہورکے "اولڈ ایج ہوم" میں شفٹ کر آئے
ہیں۔
میں نے پاس کھڑےنوکر سے کہا: مجھے اور بھائی صاحب کو
چائے پلاؤ
کچھ دیر میں چائے آئی. بھائی صاحب کو میں نے بہت کوشش
کی چائے پلانے کی۔ مگر انہوں نے نہیں پی
کچھ دیر خاموش بیٹھے رہےپھر معصوم بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
اور بولے میں نے 3 دنوں سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے۔ میں
اپنی 65
سال کی ماں کو کچھ لوگوں کے حوالے کر کے آیا ہوں۔
پچھلے سال سے میرے گھر میں میری ماں کے لیے رہنا مصیبت
بن گیا تھا۔
میری بیوی نے قسم کھا لی تھی کہ "وہ ماں جی کا
دھیان نہیں رکھیں گی"
نہ تو یہ ان سے بات کرتی تھی اور نہ میرے بچے ان سے بات
کرتے تھے۔
روز میرے کورٹ سے آنے کے بعد ماں بہت روتی تھی۔
گھر کے نوکر تک ان سے خراب طریقے سے پیش آتے تھے اور اپنی من مانی کرتے تھے۔
ماں نے 10 دن پہلے بول دیا: بیٹا تو مجھے اولڈ ایج ہوم
میں ڈال دے۔
میں نے بہت
کوشش کی پوری فیملی کو سمجھانے کی، لیکن کسی نے ماں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی۔
جب میں دو سال کا تھا تب ابو انتقال کرگئے تھے۔ ماں نے
دوسروں کے گھروں میں کام کر کے مجھے پڑھایا۔
اس قابل بنایا کے میں آج ایک جج ہوں۔لوگ بتاتے ہیں کہ
ماں دوسروں کے گھر کام کرتے وقت بھی کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔
اس ماں کو!
میں آج اولڈ
ایج ہوم میں چھوڑ آیا ہوں۔
میں اپنی ماں کے
ایک ایک دکھ کو یاد کرکے تڑپ رہا ہوں جو انھوں نے صرف میرے لئے اٹھائے تھے۔
مجھے آج بھی
یاد ہے جب میں میٹرک کا امتحان دینے والا تھا۔ ماں میرے ساتھ رات رات بھر بیٹھی
رہتی تھی۔
ایک بار جب میں اسکول سے گھر آیا تو ماں کو بہت زبردست
بخار میں مبتلا پایا۔ پورا جسم تپ رہا تھا۔
میں نے ماں سے
کہا تجھےتیز بخار ہے۔ تب ماں ہنستے ہوئے بولی ابھی کھانا بنا کر آئی ہوں اس لئے
گرم ہے۔
لوگوں سے ادھار مانگ کر مجھے یونیورسٹی سے *ایل ایل بی*
تک پڑھایا۔
مجھے
ٹیوشن تک نہیں پڑھانےدیتی تھی۔ کہیں میرا وقت برباد نہ ہو جائے۔
یہ
کہتے کہتے اور زیادہ زور زورسے رونے لگے ۔
پھر کہنے لگے۔ جب اپنی ماں کے ہم نہیں ہو سکے تو اپنے
بیوی اور بچوں کے کیا ہوں گے۔
ہم جن کے جسم کے ٹکڑے ہیں، آج ہم ان کو ایسے لوگوں کے
حوالے کر آئے جو ان کی عادت، ان کی بیماری، ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے
ہیں۔
جب میں اپنی ماں کے لئے کچھ نہیں کر سکتا تو میں کسی اور کے لئے بھلا کیا کر
سکتا ہوں۔
آزادی اگر اتنی پیاری ہے اور ماں اتنی بوجھ ہے تو، میں
پوری آزادی دینا چاہتا ہوں۔
حقیقی آزادی!
جب میں بغیر باپ کے پل گیا تو یہ بچے بھی پل جائیں گے۔
اسی لیے میں
طلاق کے کاغذات کورٹ سے تیار کروا کر لایا ہوں ۔
میں اسے طلاق دینا چاہتا ہوں۔
ساری پراپرٹی میں ان لوگوں کے حوالے کرکے اس اولڈ ایج ہوم
میں رہوں گا۔ وہاں کم سے کم ماں کے ساتھ رہ تو سکتا ہوں۔
اور اگر اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود میری ماں، اولڈ ایج
ہوم میں رہنے کے لئے مجبور ہے تو ایک دن مجھے بھی وہاں جانا ہی پڑے گا۔ مجھے !
ماں کے ساتھ رہتے رہتے عادت ہو جائےگی۔
پھرماں کی طرح تکلیف تو نہیں ہوگی۔
بھائی جان جتنا بولتے اس سے بھی زیادہ رو تے۔
اس دوران رات کے 12:30 ہوگئے۔ میں نے بھابی جی اور بچوں
کے چہروں کو دیکھا۔
ان کے چہرے پچھتاوے کے جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔
میں نے ڈرائیور سے کہا؛ ابھی ہم لوگ اولڈ ایج ہوم چلیں
گے۔
بھابی جی، بچے
اور ہم سارے لوگ اولڈ ایج ہوم پہنچے ،
بہت
زیادہ درخواست کرنے پر گیٹ کھلا۔
بھائی
صاحب نے گیٹ کیپر کے پیر پکڑ لیے۔ بولے میری ماں ہے۔ میں اسے لینے آیا ہوں۔
چوکیدار نے پوچھا "کیا کرتے ہو صاحب؟
بھائی صاحب نے کہا۔ میں ایک جج ہوں۔
اس چوکیدار نے کہا "یہاں سارے ثبوت سامنے ہیں۔ آپ
اپنی ماں کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے۔ اوروں کے ساتھ کیا انصاف کرتے ہو گے صاحب؟
اتنا
کہہ کر ہم لوگوں کو وہیں روکنےکا بول کر
وہ اندر چلا گیا۔
اندر سے ایک عورت آئی جو وارڈن تھی۔ اس نے بڑے زہریلے لہجے
میں کہا۔
2 بجے رات کو
آپ لوگ ماں جی کو لے جاکے کہیں مار دیں تو میں اللہ کو کیا جواب دوں گی؟
میں نے وارڈن کو تسلی دیتے ہوئےکہا :
"بہن آپ یقین کیجئے یہ لوگ بہت پچھتاوے میں جی رہے
ہیں"
آخر بڑی منت سماجت کے بعد وہ ہمیں ان کے کمرے میں لے
گئی.،
کمرے کا جو
نظارہ تھا اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ صرف ایک فوٹو جس میں پوری فیملی ہے،
وہ بھی ماں کی بغل میں جیسے بچے کو سلا رکھا ہے۔
مجھے دیکھا تو انہیں لگا کہیں بات نہ کھل جائے۔
لیکن جب میں نے کہا کہ ہم لوگ آپ کو لینے آئے ہیں۔
تو ماں جی ایک
ایک سے ملنے لگی سب لوگ زارو قطار رو رہے تھے اور روتے روتے ایک کے بعد ایک ماں جی
کو لپٹ رہا تھا۔
آس پاس کے کمروں میں اور بھی بزرگ تھے۔ سب لوگ جاگ گئے۔
سب کی بھی آنکھیں نم تھیں۔
کچھ وقت کے بعد چلنے کی تیاری ہوئی۔ پورے اولڈ ہوم کے
لوگ باہر تک آئے۔
کس طرح ہم لوگ اولڈ ایج ہوم کے لوگوں کو چھوڑ پائے
الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
سب لوگ اس امید سے دیکھ رہے تھے، کہ شایدکسی دن ان کا
کوئی پیارا انہیں بھی اسی طرح
لینے آئے۔
راستے میں بچے اور بھابی جی تو چپ چاپ رہے۔
مگر ماں اور بھائی صاحب پرانی باتیں یاد کرکے رو رہے
تھے۔ گھر آتے آتے قریباًاذانِ فجر کا وقت ہو گیا
بھابی جی بہت اچھی طرح یہ سمجھ گئی تھیں کہ خوشی کی چابی
کہاں ہے ۔
میں بھی چل دیا لیکن راستے بھر وہ ساری باتیں اور نظارے
آنکھوں میں گھومتے رہے۔
*ماں صرف ماں ہے*
*اسکو مرنے سے پہلے
نہ ماریں۔
یقین مانیں ماں کے بغیر سب ہوگا تمہارے پاس ، لیکن! سکون نہیں ہوگا۔
سکون صرف ماں کے آنچل میں ہوتا ہے۔ اس آنچل کو بکھرنے مت دینا۔
ماں ہماری طاقت ہے۔ اس رشتے کو کمزور نہ ہونے دیں۔
اگر یہ کمزور ہو گیا تو ہمارا خاندانی نظام، ہماری ثقافت
بکھر جائےگی ۔
ماں کا رشتہ ہمارے خاندانی نظام میں انسانی جسم میں
ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے ۔ بیک بون کے
بغیر معاشرہ کیسا ہوگا؟ یہ کسی سے چھپا
ہوا نہیں ہے۔
اگر آپ کے آس پاس یا رشتہ داری میں اس طرح کا کوئی مسئلہ ہو تو انھیں اچھی طرح سمجھائیں، اس کاز کےلیے اپنا وقت نکالیں۔ ہر ممکن
کوشش کریں، جنم دینے والی ماں کو بے گھر ، بے
سہارا نہ ہونے دیں۔ اگر ماں کی آنکھ سے آنسو گر گئے تو یہ قرض کئی صدیوں تک رہے
گا۔
اس دل کو چھو لینے والی داستان کو خود بھی پڑھیں۔ اور
اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں تاکہ اس سے عبرت حاصل کر سکیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں