اشاعتیں

جون, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سلسلہ اصلاح تَلَفّظ : ایک زندہ قوم کے افراد اپنی قومی زبان سے کبھی پہلوتہی نہیں کرتے۔

تصویر
میرے عزیزو ! اِصلاحِ تَلَفُّظ کی خاطر ،اپنی گفتگو کا آغاز ایسے اُردُو الفاظ کے ذکر سے کرتےہیں جو عربی سے اُرُدو میں لئے گئے ہیں ۔ یاد رکھیں ! عربی کے جو الفاظ اُردُو میں استعمال ہوتے ہیں ان میں سے بیش تر " مصدر " ہیں اور تین حرفوں پر مشتمل ہیں یعنی "سہ حرفی" ہیں۔عربی میں ایسے " افعال " کے چالیس سے زائد وزن ہیں لیکن ہم صرف اُن اَوزان پر بات کریں گے جو اُردُو میں استعمال ہوتے ہیں۔ 1۔فَعْل کے وزن پر آنے والے اُردُو الفاظ ہم کہہ سکتے ہیں اُردُو کے ایسے الفاظ جن کے پہلے حرف پر زبر ہو (مفتوح) اور آخری دو حرف ساکن ہوں۔ جیسے صَبر - عَرض - قَرض - فَرض - شَکل- شَرط - شَرح - طَرح - فَتح - ہَرج - جَمع - رَفع - وَضع - حَذف - فَرق - دَخل - فَضل - خَتم - ہَضم -حَجم - غَلط - سَمت - نَفل ۔۔۔۔۔ درج بالا الفاظ کا پہلا حرف مفتوح یعنی زبر(-َ) والا ہے۔ ·مصدر: اسے الفاظ جن سے مزید لفظ بنتے ہوں۔جیسےکھیل سےکھیلنا، کھلانا، کھلاڑی · افعال: فعل کی جمع ،مطلب کام مثلاً کھانا ، پینا، سونا۔۔۔۔ · مفتوح:جس حرف پر زبر ہو۔ ·جس پر کوئی علامت زیر، زبر ، پیش وغیرہ نہ ہو...

مراۃ العروس کا تنقیدی و فکری جائزہ۔۔

تصویر
اُردُو زبان میں سب سے پہلے جس شخصیت نے باقاعدہ طور پر ناول نگاری کا آغاز کیا اس کا نام مولوی نذیر احمد ہے۔ ناقدین کی اکثریت نے مولوی صاحب کو اُردُو زبان کا پہلا ناول نویس تسلیم کیا ہے۔ کیونکہ ان کے ناول، ناول نگاری  کے فنی لوازمات پر پورے اترتے ہیں۔ اُنہوں نے اُردُو کا پہلا ناول " مراۃ العروس 1869ء" میں لکھا۔ "بنات النعش"، " توبتہ النصوح"،"فسانہ مبتلا "، "ابن الوقت"، "رویائےصادقہ"اور "ایامی ٰ" ان کے مشہور ناول ہیں۔  نذیر احمد نے یہ ناول انگریزی اد ب سے متاثر ہو کر لکھے۔ لیکن ا ن کا ایک خاص مقصدتھا۔ خصوصاً جب 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان اپنا قومی وجود برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعے سے جمہور، خصوصاً طبقہ نسوا ں    کی نئی نسل کی معاشرتی واصلاحی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا۔  ہم کہ سکتے ہیں اُن کے ناولوں کا مقصد مسلمانان ہند کی اصلاح اور ان کو صحیح راستے پر ڈالنا تھا۔  اصلاح کے ساتھ ساتھ انھوں نے اردو ادب کو اپنے ناولوں کے ذریعے بہترین کرداروں سے نوازا۔ ان کے...

اُردُو ناول کا ارتقاء‎

تصویر
اُردُو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گذرتا رہا ہے ۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور ادیبوں نے اس کے لیےنت نئی راہیں ہموار کی ہیں ۔ شاعروں او ر ادیبوں نے اپنی ان تھک کاوشوں سے اُردُو ادب کو مختلف اصناف سے آراستہ کیا۔اُردُو میں ناول کی صنف بھی ان ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔ ناول اطالوی زبان کے لفظ سے نکلا ہے ۔مختلف ناقدین نے ناول کی تعریف مختلف انداز میں کی ہے ۔ رابن سن کر و سو کے غیر فانی مصنف ڈینیل ڈنو نے اس فن کی بنیاد ڈالتے ہوئے دو چیزوں کا خاص طور سے لحاظ کیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ قصیدہ گو کو حقیقت نگار ہوگا ہونا چاہئے۔ دوسرایہ کہ اس سے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر قصہ حقیقت پر مبنی نہ ہو گا تو جھوٹا ہوگا۔ اور اپنی تصنیف کے ذریعے مصنف جھوٹ بولنے کا عادی ہو جائے گا ۔ وہ کہتا ہے " قصہ بنا کر پیش کر نا بہت ہی بڑا جرم ہے۔ یہ اس طرح کی دروغ پر مبنی ہے ۔ جو دل میں ایک بہت بڑا سراخ کر دیتی ہے جس کے ذریعے جھوٹ آہستہ آہستہ داخل ہو کر ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔" فیلڈنگ جو انگریزی  ناول کے عناصر اربعہ میں سے ہیں اس فن کی تعریف میں یو ں رقم طراز ہی...

اُردُو کی تعلیم کیوں؟

تصویر
میرے خیال میں تدریسِ اُردُو کے مسائل پر بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیےکہ تدریسِ اُردُو کی آخرضرورت کیاہے؟   میں نے اعلیٰ ثانوی درجے کے طلبہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب ہمیں انجنیئر یا ڈاکٹر بننا ہے تو پھر اُردُو کی تدریس میں کیوں اُلجھایا جا رہا ہے۔ گویا ثانوی درجہ پاس کرنے کے بعد اردو کو بحیثیت مضمون بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔اس کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مگر سب سے بڑی وجہ شاید یہی ہے کہ انجینئرنگ یا ڈاکٹری کی پیشہ ورانہ تعلیم میں زبان مددگار ثابت نہیں ہوتی ۔ ان دونوں یا اس طرح کے دیگر پیشہ ورانہ شعبوں میں صرف انگریزی زبان ہی عمل دخل رکھتی ہے۔   دنیا کے بیشتر ممالک میں پیشہ ورانہ تعلیم کا نصاب ان کی اپنی زبانوں میں موجود ہوتا ہے۔ سالہا سال کی محنت سے ان ملکوں کے مختلف ادارے نصابی کتب کو دوسری زبانوں سے اپنی زبان میں منتقل کر کے اپنی زبان کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرواتے ہیں۔ ایسے ادارے ہمارے ملک میں بھی موجود ہیں اور اس نوع کے کام میں مصروف بھی ہیں مگر عملاً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اردو زبان کو انگریزی کی جگہ لانے میں ان کا کردار اب تک مؤثر ثابت نہیں ہو سکا ...