اُردُو ناول کا ارتقاء
اُردُو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گذرتا رہا ہے ۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور ادیبوں نے اس کے لیےنت نئی راہیں ہموار کی ہیں ۔ شاعروں او ر ادیبوں نے اپنی ان تھک کاوشوں سے اُردُو ادب کو مختلف اصناف سے آراستہ کیا۔اُردُو میں ناول کی صنف بھی ان ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔ ناول اطالوی زبان کے لفظ سے نکلا ہے ۔مختلف ناقدین نے ناول کی تعریف مختلف انداز میں کی ہے ۔
رابن سن کر و سو کے غیر فانی مصنف ڈینیل ڈنو نے اس فن
کی بنیاد ڈالتے ہوئے دو چیزوں کا خاص طور سے لحاظ کیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ قصیدہ گو کو
حقیقت نگار ہوگا ہونا چاہئے۔ دوسرایہ کہ اس سے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق دینا چاہیے۔
اس لیے کہ اگر قصہ حقیقت پر مبنی نہ ہو گا تو جھوٹا ہوگا۔ اور اپنی تصنیف کے ذریعے
مصنف جھوٹ بولنے کا عادی ہو جائے گا ۔ وہ کہتا ہے
" قصہ بنا کر پیش کر نا بہت ہی بڑا
جرم ہے۔ یہ اس طرح کی دروغ پر مبنی ہے ۔ جو دل میں ایک بہت بڑا سراخ کر دیتی ہے جس
کے ذریعے جھوٹ آہستہ آہستہ داخل ہو کر ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔"
فیلڈنگ جو انگریزی ناول کے عناصر اربعہ میں سے ہیں اس فن کی تعریف میں یو ں رقم طراز ہیں ۔
" ناول نثر میں
ایک طربیہ کہانی ہے ۔"
یعنی اس کے نزدیک المیہ
کہانی ہو ل کے موضوع سے باہر ہے وہ اس طرح رچرڈسن کے اس نقطہ نظر کو رد کرتا ہے کہ کہانی
کی غرض نیکی اور اخلاق کا سدھارنا ہے ۔ فیلڈنگ اسے ہنسنے اور ہنسانے کا ذریعہ سمجھتا
ہے اس لیے وہ اس میں طربیہ کی شرط لگا دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ تعریف بھی نا مکمل ہے
۔ اس کا ایک ہم عصر سمولٹ اس نئے فن کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے ۔
’’ ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے جس میں ایک مقررہ پلاٹ کو واضح
کرنے کے لیے زندگی کے کردار مختلف جماعتوں کے ساتھ رکھ کر مختلف پہلوؤں سے دکھائے جاتے
ہیں‘‘
یہ تعریف بھی نا کافی
ہے اس لیے کہ اس میں سارا زور پلاٹ پر ہے یہ کردار کو واضح کرنے کے لیے پلاٹ نہیں بناتے
ہیں بلکہ پلاٹ کو واضح کر نے کے لیے کردار۔چنانچہ انگلستان کی
ایک ادیبہ کلارا ایوز اس فن کی یوں تعریف کرتی ہیں۔
’’ ناول اس زمانے کی
زندگی او ر معاشرے کی سچی تصویر ہے جسزمانے میں وہ لکھا
جائے۔‘‘
پروفیسر بیکر نے ناول
کے لیے چار شرطیں لازم کردیں ۔قصہ ہو ، نثر میں ہو، زندگی کی تصویر ہو اور اس میں ربط
ویک رنگی ہو۔ یعنی یہ قصہ صرف نثر میں لکھا نہ گیا ہو بلکہ حقیقت پر مبنی ہواور کسی
خاص مقصد یا نقطہ نظر کو پیش کر تا ہو ۔در اصل ناول وہ صنف
ہے جس میں حقیقی زندگی کی گونا گوں جزویات کوکبھی اسرار کے قالب میں کبھی تاریخ کے قالب
میں کبھی رزم کے قالب میں کبھی سیاحت یا پھر نفسیات کے قالب میں ڈھالا جاتا رہا لیکن
ان تمام شکلوں میں جو چیزیں مشترک تھیں وہ قصہ، پلاٹ کردار، مکالمہ، مناظر فطرت، زمان
ومکاں نظریۂ حیات اور اسلوب بیان ہیں۔
اُردُو میں ناول کو ایک
خاص مقام حاصل ہے ۔یہ صنف ، ادب برائے زند گی کی ترجمانی کرتی ہے ۔ ناول نویس اپنی
خواہش کے مطابق کوئی نئی دنیا نہیں بنا تا ، وہ ہماری ہی دنیا سے بحث کر تا ہے ۔ جس
میں دکھ ہو سکھ ہو ، جنگ بھی ہو، صلح بھی ہو ا ور پیدائش بھی ، زمیندار بھی ہو اور
مزدور بھی ، بادشاہ بھی ہو اورغلام بھی ۔ ناول نگار صرف تخیل میں پرواز نہیں کرتا ہے
۔ اس کے قصے کی بنیاد روز مرہ کی زندگی ہوتی ہے۔بیسویں صدی میں جو ناول تخلیق ہوئے
ان ناولوں کو تخلیق کر نے کے پیچھے ناول نگاروں کا کیا رجحان رہا یا کیا نظریات رہے
۔ جدو جہد آزادی کا اردو ناول پہ کیا اثر رہا ، ادب لطیف نے ناول کو کس طرح متاثر کیا
ترقی پسند تحریک نے اردو ناول کو کس حد تک متاثر کیا ، حلقہ ارباب ذوق کے تحت لکھے
گئے ناول کس قسم کے ہیں ، تقسیم ہند کےا لمیے نے اردو ناول کو کس حد تک متاثر کیا ،
علامت نگاری اور تجریدیت نے اردو ناول کو کس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور جدیدیت
و مابعد جدیدت نے اردو ناول پر کون سے ان مٹ نقوش چھوڑے، ان تمام رجحانات اور نظریات
کی روشنی میں ہم اردو کے ناولوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن ان میں’’ بیسویں صدی کے اردو
ناول میں فکری میلاتات‘‘ کے عنوان سے ابھی تک کوئی بھی تحقیقی یا تنقیدی کام نہیں ہوا
ہے چنانچہ بیسویں صدی کے تہذیبی، سماجی اور تاریخی پس منظر کے تناظر میں ان ناولوں
کا جو کہ بیسویں صدی میں لکھے گئے جائزہ لیا جائے گا جو اس پورے عہد کی تجسیم کاری
کے عمدہ نمونے ہیں اور یہ کوشش کی جائے گی کہ ان ناولوں کو وجود میں لانے کے پیچھے
ناول نگاروں کی فکر کیا رہی اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
قصہ اورکہانی کی تاریخ
اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ۔ اپنی موجودہ شکل میں گو کہانی مغرب کی دین ہے
مگر واقعہ یہ ہے کہ قصہ یا حکایت کے روپ میں یہ قدیم شاعری میں بھی موجود تھی اور عوام
الناس میں مقبول بھی ۔ یہ وہ سچا ئیاں ہیں جن کے ماننے یا نہ ماننے سے ان کی اصلیت
پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
جس طرح بولنا، سننا
سمجھنا محسوس کرنابشر کی جبلت میں ہے اس طرح کہانی بھی انسان کی فطرت میں داخل ہے
۔ زمانہ قدیم میں جب انسان جنگل اور پہاڑوں کا باسی تھا اس وقت ان کا نہ کوئی کنبہ
تھا نہ قبیلہ اور نہ انہیں تہذیب، معاشرے یا سیاست سے کوئی مطلب تھا ۔ دن گذرتا گیا
عہدبہ عہد حضرت انسان ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا ۔ جنگلوں اور پہاڑوں سے نکل کر چند
افراد خاندان اور قبیلہ کی شکل میں سماجی طور پر زندگی بسر کر نے لگے۔ اپنی ضروریات
کے پیش نظر ایک دوسرے کے قریب ہونے اور ایک دوسرے کے درد و غم اور خوشی میں شریک ہونے
لگے ۔ انسانی زندگی کامعیار اونچا ہونے لگا سماج میں تہذیب و تمدن تعلیم و تر بیت کا
بھی فروغ ہوا ۔ انہیں دنوں تھکے ماندے یہ انسان اپنے وقت کو آرام و راحت کے ساتھ گذارانے
کے لئے موقع بہ موقع ایک ساتھ چند افراد مل بیٹھ کر ما فوق الفطری عناصر پر مبنی بات
چیت کر تے تھے جو کہانی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ جو عشقیہ اور تمٹیلی رنگ لیے ہوئے
مافوق الفطری عناصر پر مبنی ہو تی تھی جس کا مقصد آرام ، چین، سیرو تفریح تھا مگر جب
زینہ بہ زینہ انسان تہذیب یا فتہ اورتعلم یا فتہ ہو تا گیا تو اس کے سوچنے سمجھنے اور
زندگی گذارنے کا معیار بھی بدلتا گیا ایسی صورت میں مافوق الفطری عناصر سے مبرّا خاص
تمٹیلی پیرائے میں کہانی اور داستانیں لکھیں جس کا مقصد انسانی زندگی کی اصلاح تھی
ان کہانیوں اور داستانو ں میں پند ونصیحت کا پر تو نمایاں ہوتا تھا مثلاً ملا وجہی
کی ’’ سب رس‘‘ اس نوعیت کی چیزہے ۔ یہیں سے انسانی زندگی اورادب میں رومان خاص طور
سے جگہ لے لیتا ہے اور داستانی کہانی کا آغاز ہوتا ہے ۔
داستان کا آغاز
داستان اور کہانی کا
انسانی زندگی سے چولی دامن کا رشتہ ہے جہاں انسان کہانی یا داستان لکھتا بھی ہے اور
سنا تا بھی ہے ۔ کہانی یا داستان انسان کا وہ کارہائےنمایاں ہے جس میں انھوں نے اپنے زندگی
کو مثالی بناکر تہذیب کی چوٹی پر پہنچا یاہے اس وقت کی داستانوں میں تخیلی تصور مافوق
الفطری اور رومانی عناصر پائے جاتے ہیں ۔ انہیں دنوں انسان چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی بجائے
فرصت کے پیش نظر بڑی بڑی داستانیں سننے سنانے اور لکھنے بھی لگے ۔
اُردُو ادب میں با قاعدہ
داستانوں کا آغازاٹھارویں صدی کے آخر میں تحسین کی ’’ نو طرزمرصع ‘‘ سے ہوتا ہے ۔ انیسویں
صدی عیسوی میں تحسین کی ’’ نو طرزمرصع‘‘ باغ و بہار اور انشاء کی ’’ رانی کیتکی‘‘ کی
داستانوں کو چھوڑ کر میر امن کی
" باغ و بہار" حیدر بخش حیدری ’’ آرائش محفل‘‘ طوطا
کہانی‘‘ خلیل علی خا ں اشک کی ’’ داستان امیر حمزہ‘‘ بہار علی حسینی کی ’’ نثر بے نظیر
‘‘ مظہر علی ولا اور للولال کی ’’ بیتال پچیسی‘‘ کا ظم علی جوان اور للولال کو کی
’’ سنگھاسن بتیسی‘‘ جیسی داستانیں فورٹ ولیم کالج کے تحت تصنیف ہوئیں اور اس کے بعد
محمد بخش مہجوری کی ’’ نورتن‘‘ سرور کی ’’ فسانہ عجائب‘‘ نیم چند کھتری کی ’’ گل صنوبر‘‘
الف لیلیٰ‘‘’’ بوستان خیال‘‘ طلسم ہوش ربا’’ سخن دہلوی کی ’’ سروش سخن‘‘ شیون کی
’’ طلسم حیرت‘‘ اور الف لیلیٰ‘‘ وغیرہ جیسی مختلف چھوٹی بڑی اور درمیانی داستانیں مخطوطہ
و مطبوعہ انیسویں صدی کی آخر تک لکھی ہوئی ملتی ہیں ۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا
ہے کہ اس وقت کی داستانیں منطق اورانسانی زندگی کے فلسفہ سے مبرا ان کی دل لگی اور
دلچسپی کے وسائل اور اصلاح کے ذرائع فرہم کرنے پرمشتمل ہوتی تھیں ان داستانو ں کی ضخامت
کا انحصار داستان گو یوں پر تھا۔ لوگوں کی فرصت کو گومدنظر رکھتے ہوئے داستان گو داستان
لکھتے تھے۔
صنعتی انقلاب کے بعد
بدلتے ہوئے حالات میں ہندوستانی تاریخ نے کروٹ لی انسان نے اپنی زندگی گذارنے کے طریقے
بدلے عام لوگوں میں نئی بیداری آئی اور قدیم رسم و رواج سے انحراف کر کے مغربی طرز
معاشرت کے مطابق زندگی گذاری جانے لگی۔ نئی ذہنی اور ادبی فضا ء سازگار ہوئی توجدید
تقاضوں نے پرانی روایت کو مسمار کر دیا اور نئی سماجی طاقتیں اور نقطہ نگا ہ نمودارہوئے
اور اس کے زیر اثرافسانوی ادب میں صداقت پر مبنی اور اصلاح کی غرض سے ناول لکھے جانے
لگے۔
ناول نگاری کا آغاز
جب ہم اردو ناول کے
ارتقائی سفر کا جائزہ اور ابتداء کے متعلق غور کر تے ہیں تو سب سے پہلی نظر نذیر احمد
کے ناولوں پر پڑتی ہے ۔نذیر احمد نے سب سے پہلے 1869ء میں اپنا ناول ’’ مرات العروس‘‘ لکھا اس کے بعد انھوں نے ناول او ر اصلاح معاشرت میں چو لی دامن کا رشتہ قائم کیا ۔ اس میں ان کی منطقی فکر اور اصلاحی اور تبلیغی مزاج کو خاصہ دخل ہے ۔ دھیرے دھیرے زندگی اور فن کا رشتہ وسیع ہوتا رہا اوراسی دوران مقصد اور فنی احساس کے ما بین توازن بھی قائم ہو ا جس نے نذیر احمد کے ’’ فسانہ مبتلا‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ایسی شکل اختیار کرلی جہاں واعظ اور فنکار یکساں نظر آنے لگے۔انھوں نے اپنے ناولوں میں بچوں اور عورتوں کی تعلیم کے ذریعہ
مسلم سماج کی اصلاح کی طرف توجہ دلا ئی ہے ۔ جنہیں کچھ نقادوں نے جدید ناول کے مطالبات
کو پورا نہیں کرنے کی وجہ سے ناول کہنے سے گریز کیا ہے ۔مثلاً ان نقادوں کا کہنا ہے
کہ نذیر احمد کے ناولوں کا پلاٹ موضوع اور اس کے مختلف فنی اجزاء ایسے نہیں ہیں جس
میں عام انسانی زندگی کا فلسفہ موجود ہو ۔ان کے ناول محض تبلیغی اور پند و نصائع کا
رنگ لئے ہوئے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی لڑکیوں کی اصلاح کے لیے ناول لکھے
تھے مگر سچ یہ ہے کہ ان کے ناولوں کے کردار میں عام انسانی زندگی کی ٹھوس حقیقتیں نمایاں
ہیں ۔ ان کے ناولوں کے کردار عام انسانی زندگی سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں اس طرح انھوں
نے اپنے ناول نگاری کے ذریعہ نئے اسلوب اور فن کی ایک نئی روش قائم کی ہے یہ اور بات
ہے کہ مغرب کے مفہوم کے مطابق ان کے ناول، ناول کے فن پر کھرے نہیں اترتے مگر یہ حقیقت
ہے کہ ناول کی داغ بیل انھوں نے ’’ مرات العروس‘‘ ’’بنات النعش‘‘ ’’ توبتہ النصوح‘‘
’’ ابن الوقت‘‘ ’’ فسانہ مبتلا‘‘ وغیرہ ناول لکھ کر ڈالی ہے جو ناول کا خشت اول ہے
۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار
نذیر احمد کے ہم عصر
سر شار اردو کے دوسرے ناول نگار ہیں ۔ ان کے ناولوں میں اس عہد کے لکھنؤکے معاشرت کی
تصویر کشی کثرت سے ملتی ہے ۔جنہوں نے انسانی زندگی کے پھیلاو اور ان کی گہرائیوں پر
روشنی ڈالی اور اردو ناول کو اس ابتدائی دور میں ایک ایسی روایت سے آشنا کرایا جو فنی
لوازمات سے پر ہے۔ انہوں نے لکھنوی معاشرت کو اپنا موضوع بنا کر وہاں کے لوگوں کی اجتماعی
زندگی کی اس طرح عکاسی کی کہ سب کو اپنی اصلی شکل نظر آنے لگی۔ سرشار نے پوری طرح لکھنؤ
کا مشاہدہ کیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول ’’ فسانہ آزاد‘‘ میں ایک خاص عہد کا لکھنؤ
نمایاں ہے ۔فسانہ آزاد کے ذریعہ
موضوع سے پوری واقفیت مشاہدے کی گہرائی زندگی کی وسعت اور گہرائی کا احساس اور ایک
مخصوص معاشرے کی تہذیب و تمدن او ر رسم و رواج کا علم ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ سرشار
نے داستان کی چھوڑی ہوئی روایت کے راستے پر چل کر ہمیں کئی ایسے کرداروں سے آشنا کرایا
ہے جو ایک مخصوص مزاج کے مالک خاص طبعیت کے حامل اور مثالی ہیں۔ مثلاً خوجی کا کردار
یہ کردار ناول نگاری کے فن کی روایت کا ایک نا قابل فراموش عنصر ہے ۔ یہ کردار مستقبل
کے ناول نگار وں کو فن کی روشنی بخشتا ہے ۔سرشار نے اپنے ناولوں میں لکھنوی زندگی کے
مختلف پہلووں کی مصوری کی ہے اور معاشرے کے مزاج کی عکاسی کر تے ہوئے ایسے کردار کا
تعارف کرایا ہے جو انسانی زندگی کا ترجمان ہے ۔ یہ سارے کردار وضع قطع کے اعتبار سے
ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں مگر سرشار کا کمال یہ ہے کہ ان کے ہم قامت کرداروں کی یکسانی
کے باوجود ان میں ہر جگہ ایک انفرادی رنگ عیاں ہے ۔ اس طرح ان کے ناولوں کے کردار ن
یکسانیت رکھتے ہوئے بھی اپنا ایک خاص رنگ رکھتے ہیں ۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار کے بعد شرر نے اردو
میں تاریخی ناول تخلیق کر کے ایک نئی روش کا آغاز کیا اور اپنے ناولوں میں اسلام کے
شاندار ماضی کا کثرت سے ذکر کیا اور اس روش کو انھوں نے اپنا نصب العین سمجھا جس طرح
نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعہ مسلمانوں کے متوسط طبقے کی معاشرتی اخلاقی، معاشی
مذہبی اصلاح اور مستقبل کو سنوازنے کی کوشش کی اس طر ح شرر نے ماضی کی عظمت کو دہرا
کر مسلمانوں کو راہ مستقیم پر چلانے کی کوشش کی اور قومی اتحاد بھائی چارگی اورانسان
دوستی کا سبق سکھایا تاکہ مسلمانوں کا مستقبل روشن ہو۔ شرر کے دل میں قوم کا درد تھا
انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ پورے قوم کی اصلاح کی کوشش کی ہے ۔ انھوں نے ناول کو
اپنے خیالات اور تصورات یعنی اپنی اصلاحی مقصد کو قوم تک پہونچانے کا ذریعہ بنا یا
اور ناول کے فن کو اردو میں بر تنا شروع کیا جس میں شرر کو اولیت حاصل ہے ۔ اس کی مثال
ان کا ناول ’’ فردوس بریں‘‘ ہے ۔ ناول کی وہ خوبیاں جو نذیر احمد اور سرشار کے یہاں
نہیں ملتی شرر نے ان کی طرف توجہ دی ہے ۔شرر نے اردو میں ناول
نگاری کو ایک مسئلہ فن کی طرح برتا اور اپنے ناولوں میں پر تکلف منظر نگاری کی چاشنی
اور چٹخارے اور ایک خاص قسم کی انشا پردازی کو اس طرح جگہ دی کہ یہ بھی فن کے اہم جز
ہوگئے ۔ انھوں نے مغربی فن کے مبادیات اور مشرقی مزاج کی شوخی ورنگینی کے حسین امتزج
کو فروغ دیا جس کی تقلید ان کے بعد آنے والے ناول نگاروں نے بھی کی ۔
قصہ گوئی کی دنیا میں
ایک نیا راستہ نکا لا اور اپنے فنی عمل کے ساتھ اس راستہ کو ہموار کیا جس سے آنے والوں
کے لئے انتہائی آسانی ہوگئی۔ ’’ مراۃ العروس‘‘ ’’بنات النعش‘‘ ’’ توبتہ النصوح‘‘
’’ ابن الوقت‘‘ ’’ فسانہ مبتلا‘‘ ’’ فسانہ آزاد‘‘ اور فردوس بریں جیسی شاہکار تخلیقات
اس کی روشن دلیل ہیں جس سے ہر شخص کو ناول نگاری کی روایت اور اس کے آغاز کے متعلق
معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔
اس کے بعد ناول نگاری
کا ایک ایسا دور آیا جو ابتدائی فنی روایت کی پیروی کا دور کہلاتا ہے اس دور کے روح رواں علامہ راشد الخیری ،منشی سجاد حسین
اور محمد علی طبیب ہیں ۔
راشد الخیری نے نذیر
احمد کے فن پر مبنی ناول نگاری کی ہے ان کی ناولوں کا پیش خیمہ نذیر کی طرح مسلم معاشرہ
کے مسائل کے حل کا منشور ہے ۔دونوں کے ناولوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ نذیر احمد نے
عورت کی اصلاح کے لئے ناول لکھا اور راشد الخیری نے اس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اس کی
معاشرتی حیثیت بلند کر نے کی بھی کوشش کی ہے اس طرح راشد الخیری کے ناول نذیر احمد
کے مخصوص انداز میں ہیں۔ ان کی ناول نگاری عورت کی مظلومیت کے داستان ہے ۔
راشد الخیری اپنے ناولوں
کے ذریہ وہی کام انجام دیتے ہیں جو اکبر الہ آبادی اپنی شاعری کے ذریعہ دیتے ہیں ان
کے تمام ناولوں میں گھریلوزندگی محور اور مرکز کی حیثیت رکھتی ہے ۔ انہوں نے تعلقات
کے تذکرے سے ہمشہ پر ہیز کیا ۔ جنس و جنسیات ان کے نزدیک ایک عفریت ہے ۔اس کے محض ذکر
سے بھی انہیں خوف آتا ہے ان کے ناولوں میں شروع سے آخرتک تصنغ کی چھوٹ ہے ۔ راشد الخیری
کی ناول نگاری کاسب سے بڑا نقص یہ ہے کہ وہ تبلیغی انداز اختیار کر لیتے ہیں ۔ انہوں
نے ناول نگاری کے میدان میں اپنے قلم کے جو ہر دکھلائے اور اپنے ناولوں کی بدولت مصور
غم کہلائے ۔ ان کے ناولوں کا انجام اکثر و بیشتر حالات میں المناک ہوتا ہے ۔ مگران
کی جزیات نگاری کھوکھلی جذباتیت کا شکار ہے ۔مجموعی اعتبار سے انہوں نے ناول کے فن
کو ترفی دینے میں نمایا ں حصہ نہیں لیا مگر زبان و بیان کے لحاظ سے ان کے ناول زندہ
و جاوید رہیں گے۔ منشی سجاد حسین نے سرشار کے فن پر مبنی ناول نگاری کی جیسا کہ ان
کے ناول ’’ حاجی بغلول‘‘ اور ’’طرحدار‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے فسانہ
آزاد کی روشنی میں اپنے یہ دونوں ناول تخلیق کئے ہیں ۔ ان کے ناول مذہبی اور سیاسی
تعصبات اور ذہنی حد بندیوں سے آزاد ہیں ۔ اس طر ح ناول نگاری کے اس تقلید ی دور میں
راشدالخیری اور منشی سجاد حسین نے ایک خاص روش سے متاثر ہو کر اپنا مخصوص رنگ قائم
کیا ۔ جس کی وجہ سے انہیں ناول کی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے۔
اس کے بعد محمد علی
طبیب نے شرر سے حد درجہ متاثر ہو کر ناول لکھے ہیں ان کے ناولوں میں شرر کے فن اور
اثرات نمایاں نظر آتے ہیں جس طرح شرر نے مسلمانوں کے کارہائے نمایاں کو یاد دلا کر
عہد حاضر کے زوال کے اسباب پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی اس طرح محمد علی طیب نے مسلمانوں
کی اصلاح کے لئے پند و نصائح اور لمبی تقریروں پر مشتمل ناول لکھے جس نے ان کے فن کو
نقصان بھی پہنچایا ہے ۔
محمد علی طبیب کے بعد ان دنوں جن لوگوں نے ناول نگاری کے ذریعہ
قوم و ملت کی اصلاح کی ہے ان میں سجاد حسین کسمنڈوی آغا شاعر، ریاض خیر آبادی، شاد
عظیم آبادی، احمد علی شوق اور قاری سرفراز حسین کے نام قابل ذکر ہیں ۔مجموعی طور پر ان لوگوں
کی ناول نگاری نصف بیسویں صدی ہی محیط ہے ان لوگوں نے اپنے ناولوں میں خاص معاشرے کی
زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکا سی کر کے ناول نگاری کو اوج ثر یاپر پہنچاد یا ہے ۔ ان
لوگوں نے مختلف قسم کے ادبی اور شاعر انہ وسیلوں سے کا م لے کر اجتماعی زندگی کے مختلف
مسئلوں کے موضوع پر ناول لکھ کر قوم و ملت ہے اصلاح کی خدمت انجام دی ۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں
کہ نذیر احمد، سرشار، راشدالخیری، محمد علی طبیب،منشی سجاد حسین، آغا شاعر، ریاض خیر
آبادی اور قاری سر فراز حسین کے ناولوں میں زندگی کا تنوع پھیلاؤ اور گہرائی و گیرائی
کا عنصر گا ہے گاہے ملتا ہے ۔ ان کے ناول رسوا کی طرح اخلاقی زوال کی فضا میں گہری
معنوی تعبیر و تفہیم کے حامل ہیں ۔ ا س کی وجہ یہ رہی ہے کہ ان لوگوں کے ناولوں میں
فنی نزاکتوں کی کمی نہیں تو بہتات بھی نہیں ہے مگر ایک بات ضرور ہے کہ ان لوگوں کی
تحریریں فنی شعور کی روح رواں ضرور ہیں ۔ اس کی مثال ہمارے سامنے ’’ امراؤ جان ادا‘‘
’’ خواب ہستی‘‘ ’’ہیرے کی کنی‘‘ ’’ نقلی تاجدار‘‘ ’’ ناہید‘‘ اور ’’ ارمان ہے جس کی
وجہ سے اردو ناول نگاری میں نفسیاتی اور تجزیاتی ناول کی ابتداء اور شاعرانہ تخیل کا
فروغ ہوا ۔آغا شاعر نے اپنے
’’ارمان‘‘ ’’ ہیر ے کی کنی‘‘ اور ’’ نقلی تاجدار‘‘ جیسے اہم ناولوں میں بیسویں صدی
کے ناول کے شعور کا گہرا ثبوت دیا ہے ۔یہ ان کے طبع زاد ناول ہیں انہوں نے اپنے ناولوں
میں بیسویں صدی کے مسلم گھرانوں کے معاشرت کی بھر پور عکا سی کر کے اس عہد کے رسم و
رواج اور روایت کو بروئے کار لائے ۔انہوں نے اپنے ناولوں میں عوام الناس کے نفسیاتی
مسائل کو بڑی فنکاری اور چابکدستی سے پیش کر نے کی مساعی جمیلہ کیا ہے ۔ پریم چند اس
عہد کے ناول نگاروں میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ سدرشن، محمد مہدی تسکین،قاضی عبد الغفار
، مجنو ں گورکھپوری ، نیاز فتحپوری، کشن پرشاد کول، آل احمد وغیرہ نے بھی اپنے ناولوں
میں اس عہد کے مسائل کو حالات اور نزاکت کی روشنی میں پیش کیا ہے ۔عزیز احمد نے ناداری
اور شہر میں رہنے والو ں کی جنسی رشتوں کو قلم بند کیا ہے ۔ان کی ناول نگاری کے متعلق
تنقیدی گفتگو اگلے باب میں ہوگی۔قاضی عبدالغفار نے ایک ممتاز نثر نگار اور اعلیٰ پائے
کے اہل قلم کی حیثیت سے پوری ادبی دنیا سے اوپنالوہا منوایا’’ لیلی کے خطوط‘‘ مجنوں
کی ڈائری’’ عجیب‘‘ تین بیسے کی چھوکری‘‘ جیسی داستانوی اور افسانوی کتابوں میں رومانی
انداز کی نثر کا لطف تو ملتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ ان کتابوں میں طنز کا تیرو نشتر بھی
چلایا گیا ہے ۔ انہوں نے رومانوی انداز کی ہی نثر نہیں لکھی ہے بلکہ ان کا قلم سنجیدہ
عنوانات پر بھی پوری روانی کے ساتھ چلتاہے ۔
فسانہ آزادکی طرح
امراو جان ادا کا پس منظربھی لکھنو کا زوال آمادہ معاشرہ ہے انہوں نے اپنے عہد کے لکھنؤ
معاشرے کی تصویر کشی کی ہے ۔ مرزا ہادی حسن رسوا علم ریاضی کے ماہر اور انسانی جذبات
کے نیّاض تھے ۔ ان کے ناولوں پر ان کے طبعی رجحان کا عکس صاف نظر آتا ہے ۔ ان کے ناولوں
میں جنسیات سے لے کر سیاست تک کے سارے رجحانات فنی بصیرت سے لبریز نظر آتے ہیں انہوں
نے کا ناول امراو جان ادا لکھ کر انسان کو یہ بتایا کہ انسانی زندگی کے پیچھے تہذیب
معاشرت، سیاست،معشیت، اخلاق اور تاریخ کے حقائق پوشیدہ ہوتے ہیں جس کا مطالعہ کر نے
سے ہم ماضی سے آشنا ہوتے ہیں اور اس کی روشنی میں ہم اپنے مستقبل کو سنوارتے ہیں اس
کے بعد ناول نگاری میں مر زا سعید وغیرہ کا نا م آتا ہے ۔مذکورہ بالا بنیادوں
پر ہی اردو کے مایہ ناز ناول نگار پریم چند نے ناول نگاری کا تاج محل تعمیر کیا اور
اس کی آبیاری کرکے ناول نگاری کے کارواں کو آگے بڑھایا ۔
پریم چند
پریم چند نے اس دور میں ناول
لکھنا شروع کیا جب کہ ’’ خواب ہستی‘‘ اور ’’ امراو جان ادا‘‘ منظر عام پر آچکا تھا
۔ابتداء میں انہوں نے ہندو معاشرت اور اس کی پیچیدگی پر مبنی اصلاحی ناول لکھے، ان
ناولوں کا پس منظرانہوں نے ایسے معاشرے کو بنایا جس کا ان کو خود مشاہدہ تھا۔ اس طرح
ان کے تمام ناول حقیقت اور صداقت کے غماز ہیں جہاں ان کے شدید جذبات اور غیر منطقی
جانب داری کو خاص دخل ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ابتدا ئی ناولوں کو فنی طور پر کامیاب
نہ بنا سکے جس درجہ کے ان کے ناول ’’ بازار حسن‘‘ ’’ گوشہ عافیت‘‘ میدان عمل‘‘ اور
’’ گؤ دان ہیں ۔ پریم چند کے ناول خاص طور سے ’’ گؤدان‘‘ اور ’’ میدان عمل‘‘ کے مطالعہ
سے اندازہ ہو تا ہے کہ ناول نگاری کے فن کی جس روایت کو نذیر احمد ، سرشار شرر، رسوا
اور مرزا سعید نے قائم کیا تھا اسے پریم چند نے فنی اعتبار سے مذید وسعت اور گہرائی
بخشی۔ سرشار عمیق مطالعہ
رکھنے کے باوجود نہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا محاصرہ کر سکے اور نہ ہی لازمی
، غیر لازمی اہم اور غیر اہم میں فرق قائم کر سکے ۔ پریم چند کے ناول معاشرتی، سیاسی
اور اقتصادی گوشوں کا اس طرح محاصرہ کر تے ہیں کہ ان کے ناول ان تمام چیزوں کے ساتھ
ہی ایک خاص قوم کے مزاج کے مفسر اور مبصر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ناولوں
میں قومی زندگی کے خارجی پہلو کے ساتھ ساتھ ان کے داخلی کیفیتوں کی اس طرح عکاسی کی
ہے کہ اس قوم کے جسم اور روح دونوں کے فرق عیاں ہو گئے ہیں اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں
کہ ان کے ناول ہندستان کے شہروں دیہاتوں کے نچلے اور متوسط طبقوں کی تہذیبی اور قومی
الجھنوں اور کشیدگی کے آئینے ہیں ۔ پریم چند کے ناول اردو ناول کی تاریخ میں زندگی
اور فن کی عظمت اور بلندی کے بہترین مظہر ہیں ۔ ان میں سب سے پہلے کے ناول نگاروں نے
فن کی جو روایت قائم کی تھی ۔ اسے انہوں نے وسعت ہی نہیں دی بلکہ اپنی فنی بصیرت سے
ایک نیا مفہوم دیا۔ پریم چند کے ناولوں میں جہاں مارکن اور ٹالسٹائی کے نقطۂ نظر کو
دخل ہے وہیں قدامت پسند ی یا مشرق پسندی بھی غالب ہے ۔
اس طرح پریم چند کے
بعد جن لوگوں نے فن اور فلسفہ حیات پر مبنی ناول نگاری کی اور اردو ناول کو فنی اعتبار
سے آگے بڑھایا ان میں سجاد ظہیر، عصمت چغتائی، عزیز احمد،کرشن چند اور قرتہ العین حیدر
کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔
ترقی پسند تحریک کے
ادیبوں نے مارکسزم اور موجودہ سائنس اور سماجی علوم کی روشنی میں اپنا اظہار خیال کیا
۔ ان لوگوں کا مقصد سماجی اصلاح تھا اور اس کام کو ان لوگوں نے ایک جذبہ امید اور پروگرام
کے تحت بخوبی انجام دیا ۔ اس کا پرچار ان لوگوں نے اردو ادب میں افسانہ لکھ کر کیا
یہی وجہ ہے کہ شروع ہی سے ترقی پسند تحریک کا رویہ زندگی کے بارے میں صداقت پر مبنی
تھا ۔سجاد ظہیر، کرشن چندر، عصمت چغتائی عزیز احمد اس زمانہ کے ناول نگار تھے۔ ان بزرگو
ں میں سوچنے سمجھنے اور اظہار خیال کا انداز جداگانہ تھا ۔یہ لوگ درمیانی طبقہ کے لوگ
تھے قدا مت پرستی رسم رواج اور اخلاقی بندھنوں کی چہار دیواری میں قید تھا جس کا مستقبل
تاریک ہی تاریک نظر آرہا تھا جس کا احساس ان لوگوں کو شدت سے تھا کہ یہ طبقہ برباد
ہونے جارہا ہے ۔ یہ طبقہ اپنے قدیم رواج کی ڈوری میں جکڑا ہوا شاید ہمیشہ رہ جائے اور
اس کا پھر بہت برا ہو جائے آخر کار انہوں نے اس طبقہ کے لوگوں کو تعلیم کی دعوت دی
انسانیت اور جدیدقدیم کے موضوع پر نہایت ہی خلوص و محبت کے ساتھ بتلیغ کی ۔ یہ تبلیغ
ان لوگوں نے تحریری اور تقریری دونوں طرح سے کی ۔ ان لوگوں نے جدید سائنس کی روشنی
میں اچھے مواد اورفن کی کسوٹی پر ناول نگاری کر کے متوسط طبقہ کے لوگوں کو بیدا ر کیا
جیسا کہ سجاد ظہیر نئے ناول ’’ لندن کی ایک رات‘‘ میں اپنا دانشورانہ جذبات و احساسات
اور داخلی اظہار خیال کی تکنیک سے تخلیقی حسن کو پیرا ہن بخشا یہ ناول سجاد ظہیر کی
وہ نثری کاوش ہے جو 1938ء سے اب تک مسلسل شائع ہو تی رہی ہے ناولٹ کے متن اور مواد
کی اہمیت کی پیش نظز تنقیدی ایڈیشن بھی سامنے آتے رہے ہیں ۔ یہ ناول اردو میں فنی نقطۂ
نظر سے جدید ناول کی خشت اول ہے ۔ لندن کی ایک رات ترقی پسند ادب کا ابتدائی نمونہ
ہے ۔یہ ایک ایسا ناول ہے جو 1965ء سے پہلے لکھے جانے کے با وجود آج کے نئے زمانے سے
بھی نہ صرف جڑا ہو ا ہے بلکہ عکاس اور آئینہ دار بھی ہے کیونکہ آج بھی مغربی دنیا میں
تعلیم حاصل کر نے والے طالب علموں کے مسائل زیادہ بدلے نہیں ہیں ۔ تو عصمت چغتائی تحلیل
نفسی کے ذریعہ ثمن کے کردار کو اجاگر کیا اور گاوں گھروں میں استعمال ہونے والی روز
مرہ کی بول چال کو اردو ادب میں ادبی مقام بخشا۔ کرشن چند نے خلقت کی ابدی حسن کے گود
میں سماج کے مختلف طبقہ میں ہو نے والے ظلم و ستم انسان کی پریشانی اور بے بسی کے پردہ
کو فاش کیا تو عزیز احمد نے تعلق دارا نہ مشنری اورمتوسط طبقہ کے سماج میں عام لوگو
ں کی تنگد ستی اور دیگربد حال کو اپنا موضوع بنایا۔ ان لوگو ں کی ناول نگاری سماجی
مسائل پر مبنی اعلی شاہ کار ہے جس کے ذریعہ عام لوگوں کی زندگی کو پیش کیا گیاہے ۔
خواہ غریبی ہو یا باہمی کشیدگی یاایک دوسرے پر ظلم و ستم کے واردات ۔ ہر مسائل اور
مسائل کے حل کو اپنے ناولوں میں قلم بند کیا مگر پریم چند کے ناول ’’ گؤدان‘‘ کی طرح
نشاتہ حیات کا ہمہ جہتی رزمیہ نہیں ۔ بہر حال ان لوگوں کا ناول فن اور اسلوب کے لحاظ
سے بہت دلکش اور دلچسپ ہے جس کا نذیر احمد یا پریم چند کی ناول نگاری میں سراغ نہیں۔
ان ترقی پسند ادیبوں کے دل میں قوم کا درد تھا جو کچھ دیکھا اس کومحسوس کیا اور ناول
کے سانچے میں ڈھال دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی ناول میں صداقت پر مبنی کردار ملتے
ہیں ۔ ان لوگوں کے ناول میں صرف اقربا پروری قدیم عقائد اور زمانے سے چلی آنے والی
رسم و رواج کی کشمکش اور پیچیدگی ہی نہیں بلکہ آزادی، انصاف اور انسان دوستی کے نئے
ادارے ،ئنی دنیا کی تلاش اور نئے خوابوں کی تعبیر بھی نظر آتی ہے ۔ اعظم راو نعیم،
شمسا، سب کسی تعبیر کے خلاف روا ں دواں نظر آرہے ہیں عصمت چغتائی نے اس عہد کے افسانوی
ادب کے کرداروں کو یوں پیش کیا ہے ۔
’’ نئی دنیا کا نیا
بیٹا ضدی۔ بد مزاج اور اکھڑ ہے وہ موجودہ نظام کو پسند نہیں کرتا ۔ اور اپنے نئے نظام
کے لیے بیکل ہے ۔ وہ اسے بدل ڈالنا چاہتا ہے مگر ابھی تو وہ بد نظمی سے متنفّر ہو کر
اپنی ہی بوٹیاں چبائے جا رہا ہے خود اپنا ہی جسم اپنی ہی روح کو چیر کر پھینک رہا ہے
(مجموعہ ایک بات صفحہ 11)
اس بات سے کسے انحراف
ہے کہ انگریزی دور حکومت میں ہندوستانی عوام غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے ۔ بڑے
لوگ مزدور طبقے کو استعمال کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کر رہے تھے ۔ اس بد عنوان
حکومت کی بد نظمی حارحانہ رویہ قید و بند کے نظارے متزلزل او نیم مردہ حالات ان ترقی
پسند ادبیوں کی تحریروں میں ملتے ہیں ۔ مجاز کی نظم ’’ آوارہ‘‘ میں ہیرو کا کردار اسی
نوعیت کا ہے ۔ جب ترقی پسند ادیبوں کے علاوہ گاندھی جناح اور دوسرے رہنماؤں کے خون
پسینہ کے صدقے ہندوستان آزاد ہو ا تو ہندوستانیوں کے لئے جسمانی اور روحانی دونوں آرام
کو سوں دور ہو گئے ۔ مذہب کے نام پر نفرت بغض و کینہ، فسادات قتل عام اور حیوانیت کے
خوفناک رویہ کا آغاز ہو ا تو ترقی پسند ادیب خوشگوار آزادی کا یہ نتیجہ دیکھکر خوف
سے چیخ پڑے ۔ ایسے موقع سے ’’ کرشن چند‘‘ نے غدار اور رامانند ساگرنے اور انسان مر
گیا تخلیق کر کے اپنے دل کا بھراس نکا لا۔ اس کے علاوہ ایسے موقع سے ادیبوں نے بے شمار
افسانے اورناول تخلیق کر کے اس کے پس منظر میں اخوت، مروت، انسان دوستی، بھائی چارگی،
قومی یکجہتی کی تلقین کی ۔ اس سے قبل کے افسانوں میں فکرکی گہرائی اور تنظیم کا فقدان
ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ناول ناول اور افسانہ افسانہ کہلانے کا مستحق نہیں در
اصل وہ دور ہی بحران اور خلفشار کا دور تھا ان ادیبوں کا فرض تھا کہ فوری طور پر حالات
کو قا بو میں لا کرماحول سازگار بنائیں۔ البتہ ایسے وقت میں ان لوگوں نے جذبات سے کام
لیا جس کی وجہ سے ان لوگوں کی تخلیق میں فکر و فن کی کمی نظر آتی ہے ۔
بہر حال پر چم آزادی
کے تلے ظلم و ستم مذہب کے نام پر فرقہ وارانہ فساد ات اورمختلف قسم کے واقعات رونما
ہوئے۔ اس کی برقی رو نے دل و دماغ کو جھنجھوڑ ڈالا اس کے دو نتائج بر آمد ہوئے اول
کچھ لوگ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے دوسرا ہندوستانی سماج میں جاگیردارانہ نظام کا
خاتمہ ہوا ۔ ظلم و زیادتی کی دیوار گرگئی اور عام لوگ خوشگوار زندگی گذارنے لگے۔ اس
عہد میں قاضی عبد الستار اور انور عظیم جیسے ناول نگاروں نے جاگیردارانہ نظام کے خلاف
ناول لکھا۔ ان کا ناول ’’ شب گذیدہ‘‘ اور ’’ دھواں دھواں سویرا‘‘ اس امر کی عمدہ مثال
ہے ۔ اور قرتہ العین حیدر کا ناول ’’ میرے بھی صنم خانے ‘‘سے بھی اس بد عنوان نظام
کا شیرازہ بکھرنے کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ ساتھ ہی قاضی عبد الستار اور انور عظیم نے
اپنے ناول میں تاریخی و طبقاتی شعور کے مطالعہ و مشاہدہ کے ذریعہ اس جار حانہ نظام
میں ہونے والے ظلم و ستم اور عام انسان کی محنت کا استحصال کی داستان بہت ہی موثر اور
فنی چابک دستی سے قلم بند کیا ہے۔بیسویں صدی کے ناول نگاروں میں خان محبوب طرزی بھی
ناول نگار کی حیثیت سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔
’’ دھوپ کتنی تیزی
سے ہماری طرف آرہی ہے میری جب تک انسان میں زندگی ہے اسے لڑنا چاہئے۔ دیکھو تو یہ سمندا
کا شفاف سینہ پاکیزہ ہوا ۔ ناریل کے درخت یہ لہریں یہ سورج، یہ ریت ہمارا تمہارا گناہ
یہ کھلی فضا اور یہ راحت بخش ہوا جو پھیپھڑوں میں جاتی ہے ہم کیوں نہ زندہ رہیں اور
ایک بہتر زندگی کے لئے لڑیں۔"
ان ناولوں میں محنت
کش مزدور کے حالات زندگی کو انہی کی نظر سے دیکھا اور قلم بند کیا گیا ہے ۔ یہاں ناول
میں ناول نگار نے خود کو ناول کا کردار بناکر پیش کیا ہے جس سے ان کی شخصیت میں چار
چاند لگ جا تا ہے ۔ ناول نگار اسی محنت کش دہقان کے دل و دماغ سے سو چتا اور انہیں
کے عام بول چال کی زبان میں اظہار خیال کر کے دل کی بھڑاس نکالتا ہے ۔ چنانچہ اس طرح
ہم دیکھتے ہیں کہ پر یم چند کی ناولوں کے اثرات ان بزرگوں کے ناولوں میں سیر و تفریح
کرتی نظر آتی ہے ۔ جو اردو کے دیگر ناول نگاروں نے انجام دیا ہے ۔ بحیثیت ناول نگار
موصوف کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انھوں نے اپنے ناول’’ صورت الخیال‘‘ میں ایرانیوں
، انگریزوں اور ہندوستانی ،دیہاتی انسانوں کی زبانیں مرقوم و محفوظ کر دیئے ہیں ۔ جو
اردو ناول نگاری کی ارتقا میں سنگ میل کا حکم رکھتی ۔
راجندر سنگھ اردود
نیا کے علاوہ انگریزی ہندی کے میدان میں تعارف کے محتاج نہیں ۔افسانہ نگاری کے میدان
میں جو مقام ان کو حاصل ہے کسی اور کو میسر نہیں ان کی ناولٹ ’’ ایک چادر میلی سی
‘‘ کی شہرہ آفاق ہو نے کی پوشیدہ بات اسی صداقت میں مخفی ہے ۔ بیدی نے اپنے ناول کے
کرداروں میں جان ڈالنے کے لئے اپنی ہستی کو انہی مظلوم کسانوں کے درد و کرب میں اپنے
آپ کو محو کر دیا ہے ۔ بیدی کی یہ ناولٹ گؤدان کی طرح پنجاب کے دیہی علاقے کی منظر
کشی کر تا ہے ۔ جہاں غریب مزدور محنت کر کے روزی روٹی حاصل کر تے ہیں ۔ وہ تہذیبی ماحول
کی منظر نگاری کے ساتھ ساتھ کرداروں کی تہداری کوبھی ڈرامائی انداز سے پیش کر نے کی
صلاحیت رکھتے ہیں ۔ بہر حال یہاں ’’ لہو کے پھول‘‘ حیات اﷲ انصاری کے ناول کا ذکر کر
نا غلط نہیں ہوگا۔ موصوف کا ناول ’’ لہو کے پھول‘‘ بیسویں صدی میں ہندوستان کی تحریک
آزادی پر مبنی ہے ۔ حیات اﷲ انصاری اجتماعیت سے خفگی کے بعد بھی ترقی پسند نظریہ ادب
سے منہ نہ موڑ سکے ۔ انہوں نے ناول میں انسانی زندگی اور تحریک آزادی کا جس پیمانہ
پر مطالعہ و مشاہدہ کم کیا وہ ایک خاص سیاسی اور سماجی نقط نگاہ کا ثبوت فراہم کرتی
ہے ۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں ہندوستانی عوام اور ان کی آزادی کی کوششوں کو بڑے ہی
مفکرانہ اور دانشوارانہ انداز میں رقم کیا ہے ۔ ویسے ان کا یہ ناول بہت ضخیم ہے جس
میں مصنف نے بے ضرورت وسعت پیدا کر کے قصہ کو طول دے دیاہے ۔یہ چیزیں ناول کو غیر متوازن
بنا دیتی ہے ۔ پھر بھی یہ ناول اشتراکی تحریکوں اور دیہات کے ماحول سے تعلق رکھنے والے
اردو کے شہرت یافتہ اور مقبول ناولوں کی فہر ست میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ
ان کی ناولٹ ’’ گھروندہ‘‘ اور ’’مدار‘‘ ہے جس میں ’’ گھروندہ‘‘ کافی طویل ہے اس کا
قصہ یوں ہے کہ ایک بڑے گھر کا لڑکا ایک بیراگن کے شباب پر عاشق ہو جاتا ہے کافی دشواریوں
کے بعد لڑکا لڑکی شادی کر لیتے ہیں اس کے بعد دونوں کے درمیان تہذیب و تمدن کا مسئلہ
کھڑا ہوتا ہے ۔ مگر دونوں اپنے اپنے تہذیب و تمدن پر ہی اٹل رہتے ہیں جو روایت ایک
دوسرے کے جداعلی سے چلی آرہی تھی ۔ ناولٹ ’’ مدار‘‘ کے ذریعہ حیات اﷲ انصاری مادری
زبان کو ترجیح دیتا ہے ۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ مادری زبان کا رشتہ اہم ترین رشتوں اور
جذبوں پر فضیلت رکھتا ہے ۔
اس کے بعد پاکستانی
ادیبوں نے بہت زور شور سے ناول لکھے ہیں جو اچھوتے موضوع فن تکنیک اور فکری احساس پر
مبنی ہے مگر حالات حاضرہ کے مسائل کو جنہوں نے اپنے ناول کے لئے موضوع کا مرکز بنا
یا یعنی عام انسانوں کی سماجی زندگی میں آئے دن جو واردات رونما ہوتی ہیں سیاسی، معاشی،
اقتصادی مسائل کھڑے ہوئے ہیں ان کو تنقیدی نقط نظر سے صداقت کے پر لگا کر پیش کیا ان
ناول نگاروں میں خاص خدیجہ مستورکا ’’ آنگن‘‘ ’’ اداس نسلیں ‘‘ عبداﷲ حسین اور خدا
کی بستی جانگلوس شوکت صدیقی کا خاص طور سے مشہور و معروف ہیں پہلے دونوں ناولوں کے
ذریعہ آزادی سے قبل کی انسانی زندگی کو مصنف نے بڑی چابک دستی سے پیش کیا ہے ۔ اور
دونوں کا اختتا م ملک کی تقسیم پر کیا ہے ۔ دونوں ناولوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے
کہ آغا زسے اختتام تک ایک پائیدار نقطہ ٔ نگاہ، تاریخی، سماجی گہرائی و گیرائی کا سلیقہ
پنہاں نظر آتا ہے ۔ خدیجہ مستور اپنے ناول "آنگن" کے ذریعہ ایک درمیانی درجہ کے مسلم
خاندان کے حالات بڑی منصفانہ انداز میں پیش کیا ہے ۔ وہ اس بات کی وکالت کرتی ہیں کہ
گھر میں جو چھوٹے موٹے واقعات نمو پذیر ہوتے ہیں وہ در اصل ملک کی اشتراکی زندگی میں
پیدا ہونے والے مسائل کا مرہون منت ہے ۔ انگریزی حکومت کے خلاف جو لڑائی باہر لڑی جاری
تھی اس میں سپاہیوں کی مستقل مزاجی جوانمردی موت اور تباہی کا سچا نظارہ اندرون میں
نظر آتا ہے ۔
شوکت صدیقی نے اپنے
دونوں ناولوں میں پاکستانی ماحول کی دگرگوں پیچیدہ حالات کو پیش کر نے کی جستجو کی
ہے ۔ پاکستان کے نصف جاگیردار نصف متوسط طبقہ اورسماج کے لوگ مذہب کی آڑمیں بر ملا
ہونے والی جرم کی حمایت کر تے ہیں اور انساں کی ایک شہر ی ہونے کی حیثیت سے جو بنیادی
حقوق ہیں اس کو نیست و نابود کر نے کی جو مہم چلی آرہی ہے شوکت صدیقی نے بڑی ہمت اور
بہادوری سے ناولوں کے الجھے ہوئے پلاٹ میں ان کو یکجا کیا ہے ۔ ان کا ناول’’ خدا کی
بستی‘‘ میں ’’ سلمان‘‘ سلطانہ نیاز، علی احمد کے کردار اردو ناول کے مستحکم کے کر داروں
میں انفرادی مقام رکھتے ہیں۔ جانگلوس میں پاکستان دیہاتی علاقوں میں حیوان صفت زندگی
بسر کر تے ہیں اسی صورت حال کو موضوع بنا یا ہے اور یہ بات غور طلب ہے کہ ایک لکھنوی
ادیب دیگر زبان دوسرے تہذیب و تمدن رسم و رواج ماحول اور معاشرہ کی رنگارنگی انسانی
زندگی اور نفسیات کو دل کش اور موثر طریقے سے پیش کیا ہے ۔لالی اور رحیم داد اس ناول
کا مرکزی کردار ہیں جو جیل خانہ سے باہر نکل گئے ہیں اس طرح شوکت صدیقی نے اسی ناول
میں اس بات کی دلیل پیش کی ہے کہ اس سماج میں اصل مجرم جو گناہگار ہیں وہ قید خانہ
کے اندر نہیں بلکہ باہر عیش و عشرت کی زندگی بسر کر تے ۔ یہ بہت بڑے سیاستداں ہوتے
ہیں اور حکومت میں بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ سید شیرحسین نے اپنے ناول’’ جھوک سیال‘‘
میں ایک گاؤں کے آئے دن ہوئے واردات کو قلم بند کیا ہے مگر جانگلوس اس کے بر عکس ہے
یہ ناول پورے پنجابی دیہاتی علاقے کی زندگی پر محیط ہے۔
ترقی پسندی کے علمبرداروں
نے پرانے رسم و رواج جو عام طور پر صداقت پسندی پر مبنی تھے اس سے الگ ناول نگاری کے
اصولوں و ضابطے قائم کئے جیسا کہ خواجہ احمد عباس کا ناولٹ’’ سیاہ سورج سفید سائے‘‘
اس میں مصنف نے اشتر اکی جمہوریت پر چلنے والے نو آبادی ملکوں کے خلاف جاگیردارانہ
نظام کی جار حانہ ظلم و ستم کا پردہ فاش ہے ۔ خواجہ احمد عباس نے بھی حیات اﷲ انصاری
کی طرح ہندوستانی عوام اور ان کی آزادی کی جستجو کوقلم بند کیا ہے ۔ اس کے علاوہ کرشن
چندر نے پوری کائنات کی جاگیردارانہ نظام کے جارحانہ ظلم و ستم سماجی نا برابری اعلی
ادنی کا بھید بھاؤ، لوٹ کھسوٹ خوشحال زندگی گذارنے کو اشارہ کنایہ کے ذریعہ بااثر بناکر
پیش کیا ہے ۔ انہوں نے دبے کچلے استحصال زدہ کشمیریوں کے بارے میں بہت کھل کر قلم بند
کیا ہے ۔جیسے ’’ گدھے کی سر گذشت‘‘ ’’ الٹا درخت‘‘ اسی نوعیت کی تخلیق ہے جس میں برائے
نام عوامی یا جمہوری نظام کے کل شعبہ جمہوریت انصاف قانون اور سماجی رشتوں کے ریا کارانہ
و مکارانہ رویہ پر سخت تیر چلایاگیا ہے ۔
کرشن چند
کرشن چند نے کم و بیش
پچاس ناول لکھے ہیں ۔ ان کے سماجی ناول کے غائر مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں مواد
اور تکنیک کی گو ناگونی ہے ۔ ’’ شکست‘‘ کا موضوع محنت کش مزدور کا خون چوسنا اور جاگیرداروں
کی رہنمائی میں فرقہ وارانہ فسادات کو فروغ دینا ہے ۔1952ء میں کرشن چند نے جب ’’ کھیت
جاگے ‘‘ تخلیق کر کے محنت کش مزدور کی زندگی اور حالات کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا
اس میں باغی راگھونے اپنی المناک داستان زندگی میں بیان کی ہے جس کو دوسرے دن سولی
پر چڑھا یا جا ئیگا ۔۔۔’’ مٹی کے صنم‘‘ اور ’’ میری یادوں کے چنار‘‘ کی تکنیک آپ بیتی
ہے اس میں ناول نگار نے اپنی یادوں کے ذریعہ انگریزی دور حکومت کے ظلم و تشدد کو بیان
کیا ہے ۔۔۔۔دل کی وادیاں سو گئیں بھی تکنیک کے اعتبار سے نہایت ہی اچھا اور دلچسپ ہے
۔ ایک مسافر ٹرین کے حادثہ کی وجہ سے چند دن بیابان جنگل میں گذارتا ہے جس کی رسائی
سماج کی متعدد حلقوں سے ہے ۔ وہاں وہ اپنی شناخت دے کر اپنا مدعا کا اظہار کرتا ہے
۔ دادرریل کے بچے جو بمبئی کی اوسان خطا کر دینے والی زندگی کے پس منظر میں لکھا گیا
ہے ۔ اس میں بھی جاگیردارنہ نظام کی شیطانیت و حیوانیت کا پردہ فاش کیاگیا ہے ۔اس طرح
’’ ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ ’’ برف کے پھول ‘‘ جیسے ناول ہیں ۔یہ صداقت پر مبنی ہیں
کرشن چند ر کی حقیقت نگاری میں حقیقت کا پر تو کچھ گہرا نہیں یہ اور بات ہے مگر وہ
اپنے آپ کو اس کے لئے کوشا ں رکھتے ہیں مگر اس کے بعد بھی وہ اپنے ناولوں میں ہندوستانی
سماج کی پناہ گزین انسانوں کی زندگی اس کی مشکلوں پر یشانیوں اور رویوں کا بڑی چابک
دستی سے حصار کر تے ہیں جو کسی دوسرے ناول نویس کو میسر نہیں ۔
قرۃالعین حیدر اردو
ناول کا ایک مستقل اور علیحدہ باب کہی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے اردو ناول کے فن کو تازگی
فکر اور معنویت بخشی ہے ۔ وہ ان ہی کا حصہ ہے انہوں نے اپنا پہلا ناول ’’ میرے بھی
صنم خانے‘‘ کے شروع میں اردو نوابوں تعلقہ داروں جاگیرداروں کی عیاشی ،معاشقہ بازی اوررنگارنگ
محفلوں کی عکاسی کی ہے۔جہاں شرفا، روسا معاشقے سیر و شکاررقص وسرود سب دیکھا جا سکتا ہے۔آخر میں جنگ آزادی کی تباہی و بربادی اورافلاس و مصیبت کی المناکی کی بھرپورتصویر کشی کر کے ہندوستانی مسلمانوں کے بگڑے ہوئے معاشی حالات کی اصلاح کر انے کی کوشش کی ہے ۔یہ ناول
اس دور کے اودھ کے سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی، مذہبی غرض تمام پہلو نمایاں کرتا ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں