اردو رسم الخط

اُردُو رسم الخط کے مسائل…جدید تقاضے

 پروفیسرڈاکٹر عطش دُرّانی کا مضمون     ( جو ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام دوسری عالمی اُردُو کانفرنس میں پڑھا گیا )



اُردُو بنیادی طور پر عربی رسم الخط اپنائے ہوئے ہے۔ بنیادی حرفی شکلیں وہی ہیں جو عربی میں موجود ہیں۔ جب فارسی میں اس رسم الخط کو اپنایا گیا تو اضافی اصوات کے اظہار کے لیے انھی شکلوں میں نقطوں، لکیروں اور شوشوں کا اضافہ کر دیا گیا۔ اُردُو نے اصل میں فارسی سے اگلا قدم اٹھایا اور بعض ہندوستانی اصوات کے اظہار کے لیے انھی اصولوں کو اپنایا گیا جو فارسی میں روا رکھے گئے یعنی مزید نقطوں، لکیروں اور شوشوں کو شامل کیا گیا۔ حروف تہجی کے اس اُردو سیٹ کو بھی دو تین ارتقائی مراحل سے گزرنا پڑا۔ آج یہ ترقی پذیر ہے۔ ہماری یہ ساری بحث اسی لفظ ''ترقی'' کے گرد ہے۔

یہ عجب نقطہ ٔ خیال سامنے آیا ہے کہ دنیا کے قدیم ترین رسوم الخط خواہ پیکانی ہوں یا صوری، حرفی ہوں یا علامتی سبھی دریاؤں اورسمندروں کے کناروں پر وجود میں آئے اور انھیں ملاحوں نے پھیلایا۔

عربی رسم الخط کے بارے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ مصر سے یورپ تک تجارتی سفر کرنے والی فونیقی قوم نے ہمیں یہ رسم الخط دیا جو اصل میں مصری صوری رسم الخط کی حرفی صورت تھی۔ یہ بنیادی طو رپر اکیس اور پھر ایک ترمیم کی صورت میں بائیس بنیادی شکلوں پر مشتمل کریکٹر سیٹ ہے۔ اسی سیٹ پر نقطوں، لکیروں اور شوشوں کے اضافوں کے ساتھ عربی، پھر فارسی، پھر اُردو، پھر سندھی، تب پشتو، بلوچی، براہوی، شنا، بلتی اور دیگر پاکستانی زبانوں کے حروف تہجی کا اظہار ہو سکا۔ آج یہ اضافے جاری ہیں۔ مگر 
٭٭٭٭٭
دنیا کی چارہزار سے زیادہ زبانیں آج جس مسئلے کا سب سے بڑا سامنا کر رہی ہیں وہ ٹیکنالوجی ہے۔ ٹیکنالوجی ایک دو دھاری تلوار ہے ، ایک تو یہ زبانوں کو محفوظ کر سکتی ہے اور کر رہی ہے اور دوسرے زبانوں کو پھٹک پھٹک کر کم کر سکتی ہے اور کر رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کا ایک نعرہ ہے کہ سب زبانوں اور رسوم الخط کو تحفظ دیں اور دوسرا نعرہ ہے کہ دنیا میں ایک ہی زبان اور ایک ہی رسم الخط ہونا چاہیے۔ گلوبل ازم کا یہ بنیادی تقاضا ہے۔عالمی کمپیوٹر گر امر و جو د میں آرہی ہے۔ 
رسم الخط کے حوالے سے محدود ہو کر زبانیں تو ساٹھ رہ گئیں، جنھیں ٹیکنالوجی نے محفوظ کر لیا۔ ان ساٹھ رسوم الخط میں سے ہر ایک کئی کئی زبانوں کے اظہار کے لیے استعمال ہو کر ڈھائی تین سو زبانوں کے تحفظ کا بندوبست ہو گیا۔ مگر ؟
٭٭٭٭٭
زبان اور رسم الخط تو وہی چلے گا جسے لوگ استعمال کریں گے۔ٹیکنالوجی کا ایک بڑا آلہ کمپیوٹر ہے۔ یہ تمام ساٹھ کے ساٹھ رسوم الخط کمپیوٹر پر استعمال میں آ سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کے عالمی معیاری ضابطے یونی کوڈ نے اس کی ضمانت فراہم کر رکھی ہے۔
انٹرنیٹ اور ویب پر کتنی زبانیں استعمال ہو رہی ہیں اور ان کا فی صد تناسب کیسا ہے؟ زبانوں کی بقا کے لیے یہ سوال سب سے اہم ہے۔ اب وہی زبان بچے گی جو ویب پر استعمال ہو گی۔ آج یہ تعداد چھبیس سے زیادہ نہیں۔ ان میں بھی وہی زبانیں قائم رہیں گی جن کا فی صد استعمال زیادہ ہو گا۔ افسوس کہ عربی رسم الخط کی حامل ہماری زبانیں عربی ملا کر کل ویب استعمال کا ایک فی صد بھی نہیں۔ شواہد یہ بتاتے ہیں کہ ہم بنیادی طور پر غلام ذہنیت کی قوم ہیں۔ بَّرِعظیم پاک و ہند کی عجیب خاصیت رہی ہے۔ یہاں کے زراعت پیشہ لوگ حملہ آوروں کو خوش آمدید کہتے رہے۔ پھر آنے والے بھی اسی رنگ میں رنگے جاتے رہے۔ انگریز آئے تو ہم نے انگریزی اپنا لی، رومن رسم الخط اپنا لیا۔ اُردُو رسم الخط محدو د رہا کچھ ادیبوں ، قلمکاروں، پیشہ وروں اور نچلے طبقے کے لوگوں میں۔ ٹیکنالوجی نے سہولت مہیا کر
بھی دی مگرذہنیت نہ بدلی۔
1965ء میں ٹائپ رائٹر اُردُو میں عام استعمال کے لیے سستا ہو گیا، ہم پھر بھی دستاویز انگریزی میں ٹائپ کرتے رہے۔ 85۔1984ء میں ٹائپ رائٹر کو نستعلیق طرز پر بھی ہم نے بنا دیا اور 1986ء میں اُردُو میں تار دینے کا اہتمام بھی کر دیا۔ 2006ء میں تارگھر کا ادارہ ہی ختم ہو گیا، مگر نہ دوسروں کا ٹائپ رائٹر کسی نے خریدا اور نہ کسی نے اس عرصے میں ایک بھی تار اُردُو میں بھیجا۔
1980ء میں مرزا احمد جمیل نے نستعلیق تصویری کمپوزنگ پیش کر دی، مگر اخباروں ، رسالوں، کتابوں کے سوا اسے کسی کام میں نہ لایا گیا۔ نوری نستعلیق عام ورڈ پراسیسر میں نہ چل سکتا تھا۔ کمپیوٹر چلانے کی ہدایات بھی انگریزی میں تھیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے ہم نے مائیکرو سافٹ کے ساتھ مل کر ونڈوز، آفس، ورڈ وغیرہ سب اُردو میں کر دیے۔ 2003ء میں کمپیوٹر کی سکرین اُردُو میں بدل گئی۔ پھر موٹورولا، نوکیا وغیرہ میں بھی سکرین، ایس ایم ایس اُردُو بلکہ پاکستانی زبانوں سندھی، پشتو، پنجابی وغیرہ میں بھی مہیا کر دی مگر ہماری غلام ذہنیت آج بھی انگریزی اور رومن رسم الخط ہی اپناتی ہے۔ جب زبان اور اس کا رسم الخط استعمال ہی میں نہیں آئے گا تو ٹیکنالوجی کے سیلاب میں کہاں ٹھہر پائے گا ۔مگر؟ 
٭٭٭٭٭
چند دیوانے آج بھی آبِ بقائے دوائے کا سامان کرنے میں لگے ہیں۔ اُردُو رسم الخط کے حوالے سے تو ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہمارا رسم الخط عربی ہے۔ ہم تو رسم الخط/ سکر پٹ اورطرز خط / فانٹ میں بھی فرق نہیں جا نتے ۔ نسخ اور نستعلیق اس کے خطاطی کے طرز ہیں رسوم الخط نہیں۔ ان میں فرق صرف تین حروف (ح، م،ی) میں پچھلے حرف کے اوپر کی طرف سے آملنے کے باعث ہے۔ باقی انیس شکلوں میں سوائے دائروں، قوسوں، قط اور دندانوں کے کوئی فرق نہیں۔ ٹیکنالوجی پر ہماری اُردُو اور سب پاکستانی زبانوں کے حروف اور علامتوں کو عربی کے صفحے پر جگہ ملتی ہے۔ یہ زیادہ ٹیکنیکل بات تو نہیں مگر معلوم ہونا چاہیے کہ عالمی ضابطے (یونی کوڈ) کا ایک صفحہ چار ہشتوں یعنی بائٹس پر مشتمل ہوتا جس میں کل 256 خانے ہوتے ہیں۔ ان میں پہلے عربی حروف ، ہندسوں اور علا متوں کو جگہ دی گئی ہے پھر دیگر زبانوں کے اضافی حروف شامل کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ اضافہ آج بھی ڈاکٹر سرمد حسین، ایلینا بشیر اور راقم کی کوششوں سے ہو رہاہے۔ مگر؟
٭٭٭٭٭
یونی کوڈ بہرحال محدود ہے۔ یہ بجا کہ اس میں چینی ، جاپانی ، کورین زبانوں/ سی جے کے کے رسم الخط کے ستر ہزار حروف کو بھی جگہ دی گئی ہے، مگر ہماری زبانوں کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر یونی کوڈ کے صفحے پر جگہ کم پڑ گئی تو انھوں نے از راہ ترحم چند خانے کسی اور جگہ عطا کر دیے۔ وہ بھی بھر گئے تو تھوڑی سی جگہ اور……اضافے ہیں کہ امڈے چلے آتے ہیں۔ ڈھائی تین سو سے زیادہ خانے تو عربی رسم الخط کی حامل زبانوں نے گھیر لیے۔ جگہ کا مسئلہ بڑھ گیا۔ہم نے ایک حل نکالا۔ ان تمام زبانوں کی بنیادی حرفی شکلیں تو بائیس ہی ہیں۔ نقطے، لکیریں، شوشے، علامتیں تیس کے قریب ہیں یعنی کل پچاس ساٹھ الگ الگ اجزا ہیں۔ انھی کے جوڑ توڑ سے ہماری تمام زبانوں کے تمام حروف وجود میں آتے ہیں۔ چلیں انھی کو ملا کر سافٹ ویئر اور ان کا ایک کلیدی تختہ / کی بورڈ بنا لیں تو تمام زبانیں ایک ہی جگہ ایک ہی سکھلائی میں آ جائیں گی۔ کمپیوٹرپر خطاطی کا طرز (نستعلیق/نسخ) / فانٹ بدلنا اب کوئی مشکل کام نہیں۔ ایسا بھی ہم نے کر لیا۔ مقتدرہ قومی زبان کی طرف سے کلیدی تختہ نادرا اور مائیکرو سافٹ کے لیے بناکر استعمال میں لے آئے اور ان باون پچپن بنیادی حرفی شکلوں اور ان کے تکنیکی جوڑ توڑ پر ایک تھیوری (گھوسٹ کریکٹر تھیوری) بھی پیش کر دی، یونی کوڈ، آئی ایس او وغیرہ میں قبول بھی ہو گئی۔ کوڈ نمبر بھی مل گئے۔ کامیابی ہی کامیابی۔ مگر؟
٭٭٭٭٭
ان سب کے پیچھے کتنی تحقیق اور محنت درکار ہے۔ اس کا ایک اندازہ کر لیں۔ احمد مرزا جمیل نے بیس بائیس سے ساٹھ ستر ہزار تک ترقیمے (لگیچر) تحریر کیے۔ مائیکرو سافٹ کے ونڈوز، آفس کو اُردُو میں بدلنے کے لیے ہمیں دس لاکھ کے قریب الفاظ اور اصطلاحیں اُردُو میں ڈھالناپڑیں۔ سندھی، پشتو، پنجابی، دری، فارسی کے لیے بھی اتنا ہی کام کرنا پڑا۔ اپنی تھیوری منوانے کے لیے تحقیقی مقالہ تحریر کرنے کے علاوہ پورے آٹھ برس یونی کوڈ کی ٹیکنیکل کمیٹی اور آئی ایس او کے ساتھ مسلسل مغز ماری جاری رہی۔ کامیابی تو ہوئی مگر اسے جزوی ہی کہا جا سکتا ہے۔
o نوری نستعلیق الگ سے صرف کمپو زنگ کے کام آ سکتا ہے۔ عام کمپیوٹر کے آفس سافٹ ویئر میں نہیں چل سکتا۔ کمپیوٹنگ میں استعمال نہیں ہو سکتا۔
o اُردُو میں ونڈوز ، آفس بازار میں آگئے۔ مائیکرو سافٹ کی طرف سے مفت مل رہے ہیں۔ آئی بی اے کراچی نے اُردُو اور انگریزی سافٹ ویئروں پر تحقیق کر کے بتا بھی د یاکہ دونوں کو سیکھنے میں یکساں وقت لگتا ہے۔ مگرلوگ ہیں کہ استعمال ہی میں نہیں لا رہے۔
o اُردُو میں موبائیل فون اور دیگر ٹیکنالوجی آ چکی ۔ لوگ آج بھی انگریزی ہدایات اور رومن ایس ایم ایس کو ترجیح دیتے ہیں۔
o اُردُو میں کتابوں کی سکیننگ، صوت سے تحریر اور تحریر سے صوت تک کئی منصوبے کمپیوٹر سائنس کے حوالے سے چل رہے ہیں۔ صرف فاسٹ یونیورسٹی لاہورسے دو تین سو ایم ایس سطح کے ایسے مقالے اور بارہ سے زائد ایسی کانفرنسیں منعقد کرالی ہیں۔مقتدرہ قومی زبان میں اُردُو اطلاعیات کا منصوبہ اُردو ڈیٹا بیس، یک رسمی سافٹ ویئر ، مشینی ترجمے اور سکیننگ کے لیے چھ برس تک چلتا رہا اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اوپن یونیورسٹی میں کئی مقالے تحریر میں آئے۔ کئی اور جامعات میں بھی ایسے کام ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ مگر؟
٭٭٭٭٭
یہ سارے کام کمپیوٹر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہوئے۔ جبکہ ان کے عقب میں اُردُو میں تحقیق کے کئی گوشے وا کرنے ضروری ہیں۔
اُردُو رسم الخط کے تعین کے لیے ہمیں درکار ہیں:
o اُردُو کے متفقہ حروف ، ان کی تعداد، ترتیب، شکلیں، جوڑ اور توڑ۔ یاد رہے کہ حرف کا لفظ اُردُو والے ہر چیز کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ ٹیکنالوجی میں کریکٹر، لیٹر، ڈفتھانگ، نقطے، شوشے، لکیریں، ڈنڈے، ہندسے، جوڑ ، علامتیں، حروف ابجد، حروف ابوجد، حروف تہجی الگ الگ چیزیں ہیں۔ یونی کوڈ نے گھوسٹ کریکٹر تھیوری قبول تو کی مگر ابھی یہ جزوی کامیابی ہے۔ باقی کے لیے اُردُو میں تحقیق درکار ہے۔
o مشینی ترجمے کا سافٹ ویئر تو ہم نے بنا لیا مگر اُردُو زبان کے اسلوبیات کے حوالے سے سانچے/رجسٹر، کینڈے/جینر اور محضر/ ڈسکورس کے حوالے سے
 لسانی ترقی کے کئی کام تحقیق کے محتاج ہیں۔
o اُردُو کے دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی زبان ہونے کا دعویٰ تو ہم کرتے ہیں مگر ابھی اسے عالمی سطح پر یا یونیسکو کی ساتویں زبان ہونے کی پذیرائی حاصل نہیں۔ 
اس کے لیے لسانی ترقی کے کام درکار ہیں، جو تحقیق کے محتاج ہیں۔
آج تک اس قوم نے اُردُو کی ضروریات کا کوئی سروے نہیں کیا، جس پر مبنی کوئی لسانی پالیسی بنتی اور اس لسانی پالیسی کی روشنی میں اُردُو کی ترقی کے لیے کوئی
 لائحہ عمل وجود میں آتا۔

لسانی ترقی کے لیے رسم الخط اس کا پہلا قدم ہے۔ اس کے لیے تحقیق درکار ہے۔ یہ تحقیق کہاں ہوگی؟ ظاہر ہے کہ اُردُو کے اداروں یا جامعات میں۔ مگر؟
٭٭٭٭٭

اُردُو کے ادارے اپنی موت آپ مر گئے۔مقتدرہ بھی اب ادارہ فروغ قومی زبان ہو گیا۔ انجمن ترقی اُردُو انگریزی میڈیم کی وفاقی اُردُو یونیورسٹی کے سمندر میں غرق ہو گئی۔ پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں اُردُو زبان کے لیے کوئی شعبہ موجود نہیں۔ جنھیں آپ اُردُو کے شعبے سمجھتے ہیں، یہ تو اُردُو ادب کے شعبے ہیں، جہاں اور سب کچھ ہو سکتا ہے اُردُو زبان پر تحقیق نہیں ہو سکتی۔ بلکہ ادب میں بھی تحقیق نہیں ہو رہی۔ پھر بھی اُردُو والے مصر ہیں اپنی چال پر۔ و ہ اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ہم نے جو کام کیے ان میں کئی کھانچے موجود ہیں ، جن کو تحقیق ہی پورا کر سکتی ہے۔ اس کام کے لیے ہم اُردُو کے موجودہ شعبوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ مگر؟
٭٭٭٭٭
مایوسی ہی مایوسی ہے ۔ اور مایوسی کُفر ہے۔ ہمیں کافر نہیں بننا ۔

اُردُو ادب پر بھی کام ہوتا رہے۔ مگر اُردُو زبان کے لیے بھی تحقیق درکار ہے۔ اس کے لیے بھی شعبے کام کریں۔ نئی سرکاری یونیورسٹیوں میں تو اب اُردُو ادب کے شعبے بھی نہیں کھل رہے۔ وجہ ؟ معاشیات۔
مایوسی کفر ہے۔ اور ہم سے رجایت پسند لوگ اُردُو کی ترقی کے امید وار بھی ہیں۔ ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب حکومت کوئی لسانی پالیسی بنائے اور اس کی روشنی میں تدریسیات ، ترجمہ ،ٹیکنالوجی اور رسم الخط کے کام آگے بڑھ سکیں۔ ورنہ ہم نے تو اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔ گواہ رہنا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اُردُو کے شرارتی حروف...

مراۃ العروس کا تنقیدی و فکری جائزہ۔۔

اُردُو لکھنے میں کی جانے والی عام غلطیاں Urdu Lekhnay main ke jany wali Aam Ghaltian