اُردُو میں قواعد ِ تذکیر و تانیث
٭٭٭ مولانا آفتاب اظہر صدیقی کی کتاب ”فن مضمون نگاری“ سے ماخوذ
عام زندگی میں ہم نر اور مادہ کی جو تقسیم دیکھتے ہیں وہ محض جانداروں تک محدود ہے یعنی ہمیں معلوم ہے کہ بکری مادہ ہے جبکہ شیرنر ہے۔ البتہ اگر نر اور مادہ کی اِس تقسیم کو بے جان چیزوں پر لاگو کر دیا جائے تو کیسے پتا چلے گا کہ " پلنگ" مذکر ہے یا مونث اور " میز" ہوتی ہے یا ہوتا ہے۔
عام زندگی میں ہم نر اور مادہ کی جو تقسیم دیکھتے ہیں وہ محض جانداروں تک محدود ہے یعنی ہمیں معلوم ہے کہ بکری مادہ ہے جبکہ شیرنر ہے۔ البتہ اگر نر اور مادہ کی اِس تقسیم کو بے جان چیزوں پر لاگو کر دیا جائے تو کیسے پتا چلے گا کہ " پلنگ" مذکر ہے یا مونث اور " میز" ہوتی ہے یا ہوتا ہے۔
اپنی آج کی گفتگو میں ہم اسی مخمصے پر کچھ بات کرنا چاہتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ آیا واحد اور جمع کی طرح مذکر اور مونث کے تعیّن کے لئے ،کیا ہماری زبان میں کوئی واضح اُصول موجود ہے۔
سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھ لینا چاہیئے کہ جنس ِ حقیقی کا وجود صرف جانداروں ہی میں ہوتا ہے اور جانداروں کی تذکیروتانیث کے لئے اُصول وضع کئے جا سکتے ہیں لیکن جن زبانوں میں بے جان اشیا کی بھی جِنس ہوتی ہے یعنی میز، کُرسی، کمرہ، فرش وغیرہ بھی جِنس یا جَینڈر رکھتے ہیں ۔ اُن میں تذکیروتانیث کے اُصول وضع کرنا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے اور ہمیں اہلِ زبان کی پیروی کرنی پڑتی ہے یعنی جن بے جان چیزوں کو وہ مونث بولیں ہم بھی اسے مونث ہی سمجھ لیں اور جس کو وہ مذکر استعمال کریں ہم بھی اسے مذکر ہی قرار دیں۔کچھ اہلِ زبان اِس سلسلے میں چند اُصولوں کا ذکر بھی کرتے ہیں اور قواعد نویسوں نے بھی بے جان چیزوں کی تذکیروتانیث کے کچھ قاعدے اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج کی گفتگو میں ہم اُن کوششوں کا ذکر بھی کریں گے۔ تو آئیے بات کا آغاز اپنے روزمرہ تجربے سے کرتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ لڑکا مذکر ہے اور لڑکی مونث ہے۔
تین چار سال کی عمر میں ہمیں یہ اصول تو معلوم نہیں تھا کہ الف پر ختم ہونے والے مذکر اسماء کو مونث بنانا ہو تواُن کی آخری الف کو چھوٹی " ی" میں بدل دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود خود ہم مرغا، مرغی، بکرا، بکری، یا گھوڑا، گھوڑی کے سلسلے میں کوئی غلطی نہیں کرتے تھے۔
البتہ جب چڑا، چڑی اور کُتا، کُتی تک بات پہنچتی تو کسی بزرگ کا غضب ناک چہرہ دیکھنا پڑتا اور تذکیروتانیث کے وہ معصوم سے اصول جو ہم نے لاشعوری طور پر اپنا رکھے تھے، دُھواں بن کر اُڑ جاتے۔ اِس بات کا منطقی جواب کوئی نہیں دیتا تھا کہ چڑی کو چڑیا اور کُتّی کو کُتّیا کہنا کیوں ضروری ہے۔
سکول میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ تذکیروتانیث کی دنیا تو پوری اندھیر نگری ہے اور وہاں نر، مادہ کے اصولوں کی کھُلی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ مثلاً کوّا، اُلو، ہُد ہُد، خرگوش، لنگور، گِدھ، کچھوا، مچھّر اور جھینگر کے بارے میں پتہ چلا کہ اِن بے چاروں کی مونث شکل موجود ہی نہیں ہے۔ دِل میں بار بار خیال آتا کہ مسٹر خرگوش کے گھر میں کوئی مسِز خرگوش بھی تو ہو گی، لنگور کی بیوی، گِدھ کی ماں، کچھوے کی بہن۔ کیا یہ سب ہستیاں وجود ہی نہیں رکھتیں؟ اور اگر ہیں تو اُن کے لئے الفاظ کیوں موجود نہیں۔ اِس بےانصافی اور زیادتی پر ایک بار بہت گِڑگڑا کر اپنے اُستاد سے سوال کیا تو وہ بھِنّا کر بولے ’بے انصافی تو دونوں طرف سے ہے ۔۔۔۔ مچھلی کے شوہر کا نام سنا ہے کبھی؟ وہ بھی تو وجود رکھتا ہے، ہمیں لاجواب پا کر اُستاد جی نے پوری فہرست گِنوا دی ’ فاختہ، مینا، چیل، مُرغابی، ابابیل، مکھی، چھپکلی، چھچھوندر ۔۔۔۔ کیا اِن سب کے باپ بھائی وجود نہیں رکھتے؟ لیکن اُن کے لئے کوئی علیحدہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔چند برس بعد استاد جی سے ملاقات ہوئی تو ان کی بھِنّاہٹ بدستور قائم تھی، دیکھتے ہی بولے ، اب بڑے ہو گئے ہو، اُس فہرست میں ڈائن، چُڑیل، کسبی، رنڈی، سوکن اور سہاگن بھی شامل کر لو کیونکہ اِن کا بھی کوئی مذکر نہیں ہے۔اس سرزنش کے بعد ہم نے اُستاد جی سے تو پوچھنا چھوڑ دیا لیکن اپنے طور پر تذکیروتانیث کی کوئی منطق تلاش کرتے رہے۔ جاندار اشیا کے لئے جب کچھ اُصول مِل گئے تو انھیں بے جان اشیاء پر آزما کے دیکھا اور ابتدائی نتائج انتہائی حوصلہ افزاتھے۔
ذہن میں یہ سوال تھا کہ عربی سے ایک لفظ " قلم " اُردُو میں آتا ہے اور مذکر قرار دیا جاتا ہے لیکن لکھنےکے لئے استعمال ہونے والی دوسری چیز ’پنسل‘ انگریزی سے اُردُو میں آتی ہے اور مونث ہو جاتی ہے ۔اُس وقت تک کے مطالعے سے یہ اصول تو ذہن میں پتہ ہو چکا تھا کہ بے جان چیزوں کی تذکیروتانیث کے پیچھے بھی جانداروں کی تذکیروتانیث ہی کام کر رہی ہوتی ہے۔ مثلاً چھوٹی " ی " پر ختم ہونے والے اسماء لڑکی ، مرغی اور بکری کی جِنس حقیقتاً مونث ہے چنانچہ اُردُو میں اِسی قیاس پر گاڑی، پالکی، ڈولی، کشتی، وغیرہ کی جِنس بھی مونث بن گئی ۔ اب چونکہ یہ سب سواری کے لئے استعمال ہونے والی اشیاء ہیں چنانچہ اِن کے مزید قیاس پر دیگر سواریوں کو بھی مونث سمجھ لیا گیا اور ٹرین، ریل، ٹرام، فِٹّن، بگھّی، موٹر، بس، رتھ اور ناؤ وغیرہ سب مونث قرار پا ئیں لیکن کاش ہم اسے ایک اصول قرار دے سکتے کیونکہ ابھی آپ اس ’ دریافت‘ پر مسکرا ہی رہے ہوں گے کہ آپ کو جہاز کا خیال آجائے گا۔کشتی یا ناؤ سائز میں کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو وہ مونث ہی رہے گی۔ حتّی کہ کشتیِ نوح بھی مونث ہے۔ لیکن جہاز خواہ کشتی سے بھی چھوٹا ہو وہ مذکر کہلائے گا حالانکہ وہ بھی سواری کی چیز ہے ۔موٹر کو بھی ہم تو مونث ہی گردانتے ہیں لیکن علامہ اقبال نے اسے مذکر باندھا ہے ؎ موٹر ہے ذوالفقار علی خاں کا کیا خموش! اور ٹانگہ، ریڑھا، ٹھیلا وغیرہ بھی استعمال کے لحاظ سے تو سواری یا باربرداری کے زُمرے میں آتے ہیں لیکن مونث نہیں ہیں -- گویا بزعمِ خود ہم نے بے جان چیزوں کی تذکیروتانیث کے اصولوں کا جو محل تعمیر کیا تھا وہ دھڑام سے نیچے آگیا۔۔۔
عربی میں ارض (زمین)، دار (گھر) ریح (ہوا) شمس (سورج)، عقرب (بچھّو) افعی ( سانپ) فِردوس (جنّت) اور نعل (جوتا) یہ تمام اسماء مونث ہیں کیونکہ اہلِ زبان نے اسی طرح قرار دیا ہے۔لیکن اُردُومیں زمین، ہوا اور جنّت تو عربی کی طرح مونث ہیں جبکہ سورج، جوتا، سانپ اور بچھّو مذکر ہیں اور لاکھ کوشش کے باوجود بھی ہم اسکا کوئی منطقی یا حسابی کُلیہ پیش نہیں کر سکتے۔جو تھوڑی بہت منطق تلاش بھی کی جاتی ہے وہ بھی بہت جلد بھک سے اُڑ جاتی ہے۔ مثلاً عربی میں ریح (ہوا) کے متعلق یہ اصول دریافت کیا گیا کہ اسکے مونث ہونے کے باعث ہر طرح کی ہوا کا نام عربی میں مونث ہے ۔ اِس اصول کو اُردُو پر لاگو کرتے ہوئے بعض قواعد نویسوں نے لکھا ہے کہ لفظ ہوا کے مونث ہونے کے باعث نسیم، صبا، پُروا، بچھو،اُلو اور آندھی سب مونث ہیں ۔۔۔ لیکن ابھی اس اُصول کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوتی کہ زور کا ایک بگولہ اُٹھتا ہے اور آپ کے اصول کو پرکاہ کی طرح اُڑا لے جاتا ہے، آخر بگولہ اور جھکّڑ بھی تو ہوا کی قسمیں ہیں۔ پھر یہ کیوں مونث نہیں ہیں؟
ہلکے پھلکے سے انداز میں کہی گئی یہ بات ذہن نشین ہو گئی کہ
جواب دیںحذف کریںنہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
ہاں محنت طلب کام ہے
حذف کریں
جواب دیںحذف کریںواقعی مذکر اور مونث کامعاملہ ایک معمہ ہے
آپ کا بہت بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریںاس بارے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ دو لوگ آپس میں جگھڑ رہے ۔ ایک کہتا دریا بہتا ہے دوسرا کہتا بہتی ہے ۔ ایک اہل ذبان کا گزر ہوا، اس سے پوچھا گیا تو وہ بولا یہ نہ بہتا ہے نہ بہتی ہے۔ یہ تو بہے ہے۔ تزکیرو تانیث کے مسئلے کو ایسے ھ
جواب دیںحذف کریںحل کیا جا سکتا ہے۔
����
جواب دیںحذف کریںNo
حذف کریںشاندار تحریر
جواب دیںحذف کریں